counter easy hit

جنگ گلوبل ویلج کی

Eiffel Tower

Eiffel Tower

تحریر: (شاہ بانو میر)کل رات ایفل ٹاور پر پاکستانی پرچم کی روشنیاں جلا کر پوری دنیا کو پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کا روشن پیغام دیا ۔ فرانس نے دہشت گردی کو مسترد کیا دہشت گردی کا شکار ہر ملک اور اس کی عوام ہمدردی کے مستحق ہیں ۔
فرانس کی جانب سے اس خوبصورت اظہار یکجہتی کیلئے سفیر پاکستان جناب غالب اقبال کا تزکرہ نہ کیا جائے تو نا انصافی ہوگی۔ فرانس کا یہ عمل دراصل یہاں مقیم سفیر صاحب کی کارکردگی کا جواب ہے ۔ سفیر ہمیشہ ہی اپنے ملک کیلئے کام کرتے ہیں لیکن جب اس کام میں ڈیوٹی سے ہٹ کر ملک کا نام ممتاز کرنا سر فہرست ہو تو وہ سوچ غالب اقبال کہلاتی ہے۔ فرانس میں ہر فرانسیسی ادارے کو پاکستان کے اداروں کے ساتھ جوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر کے سفارتی ثقافتی معاشرتی سطح پر روابط ماضی کی نسبت بہترین کیے جائیں اور بلا مبالغہ وہ اپنی اس سوچ کو عملی طور پے ثابت کر چکے جب جناب نواز شریف کے شاندار دورہ فرانس ہوا۔ جہاں سے بھارت کے ساتھ نئے باہمی تعلقات کا ٹوٹا سلسلہ دوبارہ جُڑا
فرانس میں دہشت گردی پر سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے تعزیتی پیغامات اور کمیونٹی کی جانب سے مکمل یکجہتی نے فرانس میں بہت اچھا تاثر پیدا کیا ۔
آج ایفل ٹاور پے پاکستان کے پرچم کو روشنیوں سےنمایاں کرنا سفیر پاکستان کی محنت کا ثمر ہے۔ یہ فرانس حکومت کی طرف سے خوبصورت جوابی اظہار ہے ۔
14 نومبر پیرس بم دھماکوں سے گونج اٹھا ہر شخص افسردہ ہر دل اداس اس خوبصورت روشنیوں کے شہر نے ایسی افتاد کہاں پہلے دیکھی تھی ۔
جنوبی ایشیا سے نکل کر دہشت گردی مختلف بدلے ہوئے ناموں سے اب یورپ پر حملہ آور ہوگئی اور پیرس بلجئیم کے بعد نجانے مزید اسکی جڑیں کہاں کہاں پھیلیں ؟
سرحدوں کا تعین ختم ہوا حملے یورپ میں ہوئے تو یہ ملک چونکے طرز عمل تبدیل ہوئے اور اب جنگ لگتا دہشت گردوں کے خلاف گلوبل ویلج کی مشترکہ جنگ بن رہی ہے ۔
اتنے عرصے سے پاکستان میں جاری دہشت گردی پر خاموش فرانس نے پہلی بار بہترین انداز اختیار کیا۔
پہلی بار پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ٹاور کو سبز اور سفید روشنیوں سے منور کیا گیا ۔
ایفل ٹاور کی روشنیوں اور بھرپور انداز میں امریکہ اور دیگر بڑے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شدید مذمت اس بات کی عکاس بھی ہے کہ یہ خود اس المیے کا شکارہوئے تو جان سکے کہ دہشت گردی دور سے دیکھنے میں آسان ہے اور خود پے گزرے تو قیامت کا پتہ دیتی ہے ۔ احساس جگا دیتی ہے انسانیت کو یکجا کر دیتی ہے خون کی قیمت بتا دیتی ہے ۔ انہیں حملے سے ہوئے نقصانات پیرس حملے کے بعد پتہ چلے جن کو پہلے جانتے نہیں تھے ۔
زخمیوں کی چیخ و پکار خون آلود راستے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کتنے ذہنوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر گئی جو معذور ہوئے ان کی زندگی کی تلخیاں اب ان کے مشاہدے میں آئیں ۔
ذہنی خوف ماحول کی اداسی ممکنہ حملوں کا ہمیشہ ذہن میں خوف ۔ سیاحتی مقامات پے کم ہوتے سیاح ۔ خفیہ ایجنسیوں کی مستقبل کی حکمت عملی کیلئے دباؤ
عوام الناس کا بیرونی سرگرمیوں سے ہلکا سا اجتناب سیاسی حکومتوں کی جانب ناکام حفاظتی انتظامات پر اٹھتی ہوئی انگلیاں ، لمحہ لمحہ کچھ ہونے کا اندیشہ ۔ ہر شہری جو بے خوف تھا اب خوف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔
سرحدوں پر مزید سختی یعنی ایک آزاد زندگی چند شدت پسندوں کی وجہ سے اپنی اصل دلکشی حسن یورپ میں بھی کھونے لگی۔ اب انہیں احساس ہو گیا کہ دہشت گردی کہیں بھی ہو وہ سانجھی ہے دہشت گردی ترقی پزیر ملک ہو یا پھر ترقی یافتہ ملک مذمت ایک جیسی ہونی چاہیے جبھی اس جنگ کو جیتا جا سکتا ہے اور دہشت گردوں کو شکست فاش دی جا سکتی ہے ۔
ورنہ
“” دہشت گردی کا جِن کبھی بوتل میں بند نہیں کیا جا سکےگا””

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir