تحریر : سردار اصفہان شوکت
میرے قابل عزت قارئین کرام! آج ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں یہ نہایت ہی بے حسی کی زندگی ہے کیونکہ معاشرے میں رہنے والا ہر ایک شخص بے حس ہو گیا ہے۔ خاص کر آج کل کی نوجوان نسل کی بے حسی کی تو کوئی انتہاء ہی نہیں ہے۔ بالخصوص نہ ہمیں بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ ہے اور نہ ہی چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے کا سلیقہ ہے اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا ٹائم ہیکہ کے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھ سکیں۔ اور اگر کسی نوجوان سے کسی فلمی ایکٹر کا پوچھا جائے تو وہ پوری ہسٹری بتانے میں ذرا بھی دقت نہیں کرے گا۔اور اگر گھر والوں کے کسی کام میں مدد کرنی ہو تو وہ پانچ منٹ نہیں نکال سکے گا۔ اس کی بڑی وجہ ایک یہ بھی ہیکہ نوجوان طبقہ جو کسی معاشرے کا مستقبل ہیں وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت سوشل نیٹ ورکنگ اور انٹرنیٹ یا کسی دوسرے فرسودہ کا موں میں صرف کر دیتا ہے۔
آج کا نوجوان سوشل نیٹ ورکنگ میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اسے دیگر معمولات زندگی کی طرف ہوش ہی نہیں ہے نہ اسے دنیا کی فکر ہے اور نہ آخرت کی۔ ۔ میری والدین سے اپیل ہیکہ اگر اپنی نئی نسل کو بچانا مقصود ہے تو کم سے کم میٹرک سے پہلے موبائل فون مہیا نہ کریں۔ اور نہ ہی سوشل نیٹ ورکنگ کی اجازت دی جائے۔اور اگر بہت ضروری ہو تو اپنی زیر نگرانی میں استعمال کرنے کیلئے دیا جائے۔ لیکن ذاتی طور پر ہر گز نہ دیا جائے۔
اگر انٹر نیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ساتھ اٹیچمنٹ ختم نہ کی گئی تو ہماری نوجوان نسل بری طرح اخلاقی پستی کا شکار ہو جائے گی۔میرا کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ان چیزوں سے بالکل ہی دور رکھا جائے بلکہ ان چیزوں سے مستفید ضرور ہوا جائے۔آج ہم ذہنی طور پر انتہا درجے کے کمزور ہو چکے ہیں۔ اور دوسری بڑی وجہ یہ ہیکہ آج کا بچہ میٹرک فرسٹ ڈویژن میں تو کر لیتا ہے۔ لیکن اگر اس سے دین کے متعلق کچھ پوچھا جائے تو وہ اس پر خاموشی سی ظاہر کر لیتا ہے ۔میرے نزدیک کی بے حسی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہم دین اسلام سے مکمل طور پر بھٹک چکے ہیں۔
دین اسلام کا مقصد صرف نماز قائم کرنا ہی نہیں بلکہ دین اسلام کوڈ آف لائف ہے۔ لہذ ا نوجوانوںچاہیئے کہ اپنے مذہب اسلام سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ معاشرتی برائیوں سے بچا جا سکے۔آج کے دور میں انسان اس قدر ذہنی الجھنوں میں مبتلاء ہو چکا ہے کہ اسے دوسروں کے لیئے کیا اپنے لیئے بھی صیحح سمت میں نہیں سوچ سکتا۔میں اپنے بزرگوں کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ نئی نسل ہی قوم کا اثاثہ ہے۔ تاکہ نوجوانوں کی بہتر تربیت ہوسکے۔
نو جوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ٹائم نکال کر اپنے بزرگوں کے پاس کچھ ٹائم کیلئے ہی بیٹھ جایاکرے۔ اور بالخصوص اپنے والدین کی باتوں پر عمل کریں تا کہ دنیا اور آخرت سنور جائے۔ لیکن افسوس کہ آج کا نوجوان ماں جیسی عظیم ہستی کی بات بھی ماننے کو تیار نہیں۔ اور آقا دو جہاں کی اس حدیث کوکیوں بھول جاتے ہیں فرمایا آپۖنے (کہ اگر میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی فرض نماز پر کھڑا ہوتا اور وہ مجھے آواز لگاتی محمدۖ تو میں فرض نماز توڑ کر بولتا جی اماں اور دوڑا چلا آتا)۔
محترم قارین کرام اور نوجوانان سے گزارش ہیکہ اس حدیث سے ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ میری نوجوان ساتھیوں سے گزارش ہیکہ ہم ترقی کے اس دور میں اتنے بھی ایڈوانس نہ ہوں کہ رشتوں کی پہچان بھول جائے۔ ہماری کامیابی اسی میں ہیکہ اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں اور ہم عصروں سے اچھا سلوک کریں جیسا کہ انکا حق ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین