گو اس واقعہ کو دس سال بیت گئے ہیں جب بغداد کی ایک پریس کانفرنس میں 29 سالہ عراقی صحافی منتظر زیدی نے امریکی صدر بش کو اپنے جوتے کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا, ’’اے کتے! یہ لو عراقی عوام کی طرف سے الوداعی بوسہ‘‘۔
زیدی نے اپنا دوسرا جوتا بھی اتار کر بش کو نشانہ بنایا اور کہا’’ یہ ان بیوائوں، یتیموں اور ان سب لوگوں کی طرف سے ہے جو عراق میں جاں بحق ہوئے ہیں‘‘۔
اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی یہ منظر جو ٹیلی وژن پر پوری دنیا نے دیکھا تھا اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اور منتظر زیدی اب بھی عوام کے دلوں میں امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے انمٹ نشان کے طور پر باقی ہے۔
منتظر زیدی کو صدر نور المالکی کے محافظوں نے زدو کوب کرتے ہوئے فی الفور دبوچ لیا اور گرفتار کر لیا۔ زیدی کو جیل میں بھی ایذا دی گئی۔ تین ماہ بعد اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور اسے تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا پر پورے مشرق وسطیٰ میں اس قدر شدید احتجاج بھڑک اٹھا کہ عراقی حکومت کو سزا کم کر کے ایک سال کردینی پڑی اور ستمبر2009ء میں زیدی کو رہا کردیا گیا۔
منتظر زیدی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عراق کی سینکڑوں دوشیزائوں نے اسے شادی کی پیشکش کی۔ ایک مالدار عرب نے دس لاکھ ڈالر میں منتظر زیدی کے جوتے خریدنے کی خواہش ظاہر کی لیکن امریکی فوج نے ان جوتوں کو نذر آتش کر کے ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ تاہم تکریت کے عوام نے شہر کے چوک میں تانبے کے ایک بڑے جوتے کا مجسمہ کھڑا کر دیا۔
رہائی کے بعد منتظر زیدی نے اپنا وطن چھوڑ دیا کیونکہ جوتے کے واقعہ سے پہلے کئی بار امریکی فوج نے اسے اغوا کیا تھا اور بری طرح سے مارا پیٹا تھا۔ سویزر لینڈ منتقل ہونے کے بعد منتظر زیدی نے انسانی امداد کا ادارہ زیدی فاونڈیشن قائم کیا۔
اب منتظر زیدی نے 12 مئی کو ہونے والے عراقی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ سایرون اتحاد کے امیدوار ہیں۔ سایرون اتحاد شیعہ رہنما مقتدی الصدر اور عراقی کمیونسٹ پارٹی کا انقلابی اصلاحات کا اتحاد ہے۔ اس اتحاد کااصل مقصد عراق میں دیمک کی طرح معیشت کو چاٹنے والی کرپشن اور فرقہ بندی کی بھڑکتی ہوئی آگ کا خاتمہ ہے۔
منتظر زیدی کا کہنا ہے کہ وہ اب عراق میں کرپشن کا جوتوں کی ٹھوکر مار کر قلع قمع کردیں گے۔ رائے عامہ کے تازہ جائزہ کے مطابق سایرون اتحاد، وزیر اعظم حیدر العبادی کے حکمران نصر اتحاد کے بعد دوسری بڑ ی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے گا۔