بنت حوا
جب اس نے سب لوگوں کو اپنی جانب متوجہ پایا تو اسے اپنی بے وقوفی پر ہنسی آنے لگی۔۔
تھوڑی سی شرمندہ ہو کر منہ ہی منہ میں مسکراتے ہوئے ہانیہ کے قریب پہنچ گٸ۔
رسما سی سلام دعا کے بعد پوچھا تم کل کیوں نہی آٸ۔
یار تم کو بھی پتا ہے نا۔ماں بابا میری شادی کی فکر میں پڑے ہیں اس لیے آۓ دن کسی نا کسی کو بلاۓ رکھتے ہیں ۔
بس اسلیے کل والے رشتہ سے انکار کر کے میں نے اپنی ففٹی مکمل کرلی ہے۔۔
اس بات پر کھلکھلا کر لڑکوں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ مارتے خوب لطف اٹھایا
ہانیہ جو کہ اسکی بچپن کی دوست تھی ۔پانچویں کلاس سے دونوں ایک ساتھ پڑھ رہی تھی۔ہانیہ کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی تھا ۔۔لیکن پڑھنے کا بہت شوق تھا جہاں تک مجھے یاد ہے کوٸ ایسی کلاس نہی تھی جس میں اس نے پوزیشن نا لی ہو۔
جب سے اس نے یونیورسٹی جواٸن کی تب سے تین چار چھٹیاں ضرور کرتی ۔
بالآخر تمنا کے پوچھنے پر ہانیہ نے ساری صورتحال بتا دی۔۔۔۔۔
چلو چھوڑو ان سب باتوں کو آٶ کلاس چلتے ہیں ۔
دوسری منزل پر کلاس تھی سسیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اسے ٹھوکر لگی گرنے لگی تھی کہ۔
نازک ہاتھوں کی گرفت اسے اپنی کمر کے گرد حاٸل ہوتی محسوس ہوٸ۔
اسے اپنے چہرے پر گرم ہوا صاف محسوس ہو رہی تھی ۔
جس کی وجہ سے اسے اپنے وجود میں عجیب سی بے چینی محسوس ہورہی تھی آنکھیں کھولنے پر اسے اپنے سامنے نیلی آنکھیں گندمی رنگت سیاہ بال اوپر کو اٹھے بھنویں بلیک جینز اور اوپر ہاف بازٶوں والی شرٹ پہنے پچیس سالہ کڑیل جوان اسے اپنی بانہوں می لیے مسکرا رہا تھا۔
بمشکل خود کو چھڑاتے
شکریہ کہتی اس سے دور ہوٸ۔
مشکل سے خود کو سنبھالتی کلاس روم کی طرف بڑھ گٸ
ابھی لیکچر سٹارٹ ہوۓ دس منٹ بھی نہی گزرے تھے
کہ اسے اپنے وجود میں بے چینی محسوس ہونے لگی۔
بار بار اس کا دیھان لیکچر سے ہٹ کر نیلی آنکھوں والے چہرے کی طرف ہوجاتا۔۔۔
لیکچر میں دل نا لگنے کی وجہ سے لیکچر چھوڑ کر کینٹین کی طرف بڑھ گٸ ۔۔۔
کینٹین میں کافی رش تھا ۔کافی دیر انتظار کے بعد ایک ٹیبل خالی ہونے پر بغیر وقت ضاٸع کیے وہ اس پر بیٹھ گٸ۔
ابھی آرڈر کرنے ہی والی تھی کہ
وہی نیلی آنکھوں والا لڑکا اس کے سامنے والی کرسی پر آ بیٹھا۔
تم۔۔۔
ادھر بڑی بی تمنا کے جانے کے بعد گاڑی کو گیٹ سے باہر جاتے دیکھ ماضی کی دھندلکی یادوں میں گم ہوگٸ
یہ سن 1962 کی بات ہے جب بڑی بی کی عمر تقریباً پندرہ برس ہوگی۔۔
جس گاٶں میں بڑی بی رہتی تھی۔وہاں ابھی تک بجلی کی رساٸ نہی ہوٸ تھی ۔
گاٶں میں چند ایک گھرانے تھے ۔۔سب بڑی بی کو رانی کے نام سے جانتے تھے۔ان کا اصل نام ریحانہ بی بی تھا۔لیکن سب گھر والے رانی کے نام سے پکارتے تھے ۔جسکی وجہ سے آس پڑوس کے لوگ بھی رانی کے نام سے جاننے لگے تھے۔
بڑی بی کے گاٶں ایک باغ تھا۔
گرمیوں کے دنوں میں سب گاٶں والے اس باغ میں کام کاج کرتے اور گزر بسر کرتے۔
اس باغ کا مالک دین محمد عرف دینو تھا ۔دینو بھی کافی نیک دل اور نیک سیرت انسان تھا ۔
اس گاٶں زیادہ تر لوگ دینو کی جگہ پر بیٹھے تھے ۔
رانی جس مکان میں رہتی تھی وہ بھی دینو کی زمین تھی
۔جاری ہے۔
قسط نمبر 2
تحری۔۔۔صوفی سفیان