counter easy hit

بھارت، ہندو انتہا پسند خوف کا شکار

Sakshi Maha Raj

Sakshi Maha Raj

تحریر: سید ماجد علی
”بھارتیہ جانتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہا راج نے کہا ہے کہ ہرہندو عورت کو چار بچے پیدا کرنا چاہیے تاکہ ہندو مذہب کو بچایا جا سکے۔ اس کا کہنا ہے کہ چار بیویوں اور 40 بچوں کا نظریہ ہندوستان میں نہیں چلے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر ہندو عورت کم از کم چار بچے پیدا کرے تاکہ ہندو مذہب کا تحفظ ہوسکے۔ ساکشی مہاراج نے کہا کہ ہندو توا کا مستقبل بچانے کیلئے لازمی ہوگیا ہے کہ ہر عورت کم سے کم چار بچے پیدا کرے۔ چار بیویوں اور 40 بچوں کے دن لوٹ آئے ہیں اور ان چار بچوں میں ایک بچہ لازمی طورپر سادھوں کے پاس رکھا جائے، ایک بچہ فوج میں جائے جبکہ دو بچے گھر کی دیکھ بھال میں رہیں۔ سادھوں کے ایک میلے میں اپنی تقریر میں ساکشی مہاراج کا یہ کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب سے ہندومذہب میں آنے یعنی ان کی زبان میں ”گھر واپسی“ کے لئے تیارہیں۔ لیکن ہندومذہب سے کسی اور مذہب میں جانے کو تبدیل مذہب سمجھتے ہیں اور اس کی روک تھام کیلئے پارلیمنٹ میں قانون بنانے کی حمایت کریں گے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاﺅ کشی مخالف قانون بنایا جائے اور قانون بن جانے کے بعد گائے کا ذبیحہ کرنے والوں کو پھانسی کی سزاد دی جائے“۔

بھارت کے ہندوﺅں کے مستقبل کی جس قدر فکر وہاں کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کو ہے اتنا بھارت کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں۔ خاص طور پربھارت کے راشٹریہ پتا مہاتما موہن داس کرم چند گاندھی کے قاتل گوڈسے، سے تو انہیں اتنی محبت ہے کہ اگراس دور میں ہوتے تو گوڈسے کی جگہ خودپھانسی کے پھندے پر جھول جاتے۔ ساکشی مہاراج کو بھارت کی سنسکرتی بھارت کی ابلا (مظالم کی شکار) ناریوں کی فکر ہروقت لاحق رہتی ہے اس معاملے میں آرایس ایس کے گرو بھاگوت جی بلکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ ناریوں (خواتین) کے خلاف ”لوجہاد“ کی تفتیش کرنے میں ساکشی مہاراج پیش پیش تھے۔ بس ان میں ایک ہی کسر ہے کہ ان کا تاریخ کا مطالعہ ابھی خاصہ کمزور ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھی خود بھی زور کا شاٹ مار کراپنے ہی پول میں بال ڈال دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ کوئی کمی کی بات نہیں ہے سادھوں اورسنتوں کیلئے دھرم کے سواکسی اورمطالعہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ صحافت کے ادنی طالب علم ہونے کے ناطے میں ہندوستانی سیاست کی جانکاری کے لئے ہندی اخبارات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتا ہوں اور باخبررہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بہرحال جب ساکشی مہاراج کے بارے میں کوئی خبر پڑھتا ہوں تو میرا دل اکثرو بیشتر شاد ہی رہتا ہے کیونکہ ان کی باتوں سے میرے دل ودماغ میں وہ نغمات گونجنے لگتے ہیں وہ سریلی گھنٹیاں دوبارہ بجنے لگتی ہیں جن کی آواز محسوس کرنے کیلئے لوگ بھارت کی گلی کوچوں میں بڑے حکیم صاحب شاہی حکیم صاحب اور راج وید کی گلیوں کا پتہ پوچھتے پھرتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ہندی ذرائع ابلاغ کی اطلاع کے مطابق ایک خبر نظر سے گزری کہ ساکشی مہاراج نے اترپردیش میں منعقدہ ”سنت سما گم مہوتسو“ میں اعلان فرمایا ”ہندو دھرم خطرے میں ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ آبادی بڑھائیں تاکہ ہندو مذہب کو بچایا جاسکے۔ ہر ہندو عورت کم ازکم چار بچے پیدا کرے تاکہ ہندو مذہب کا تحفظ ہوسکے“۔ ساتھ ہی ساکشی جی نے ایک ہی سانس میں دو بچوں کے روز گارکی ضمانت بھی دےدی اور کہا ہے کہ ایک بچے کو سادھو سنتوں کو دیدیں اور دوسرے کو سرحد پر بھیج دیا جائے کیونکہ سرحد پر جنگ بندی کے خلاف ورزی کے واقعات بڑھ رہے ہیں“ اب ان دو سنکٹوں یا مسئلوں میں سے ایک کا تعلق توصرف ہندوﺅں سے ہے اور دوسرے کا تعلق بھارتیوں سے ہے۔

ساکشی جی کے مشورے کے مطابق خیر ایک بچہ تو سرحد پر چلا جائے گا اور دوسرا سادھوں سنتوں کی خدمت کےلئے کسی مذہبی اکھاڑے یا کسی آشرم میں جاکر لنگوٹ بند دھرم آتماﺅں کی خدمت کرے گا۔ ان کے تیل ملے گا، گاﺅ موترا (گائے کی گوبر کی مالش ، ہندو مذہب میں گوبر کی مالش کو اچھا شگوں منا جاتاہے) اکٹھا کرکے ان کی مالش کرے گا۔ ان کے کپڑے دھوئے گا غرض ہر طرح انہیں راحت وآرام پہنچائے گا۔ مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کوئی مرتبہ چاہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے اور اگر بھگوان نے ساتھ دیا تو ایک دن بابا رام دیو اور بابا آسارام جیسا کروڑ پتی بھی بن سکتا ہے۔ اگر لڑکی ہوتو بھی ساکشی مہاراج کے فارمولے میں فٹ بیٹھ سکتی ہے کیونکہ جس قدر شد ومد کے ساتھ ہندو دھرم کے احیاءکی کوشش ہورہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ جلد ہی شمالی ہند کے مندروں میں بھی دیوداسی کی روایت دوبارہ بحال کردی جائے گی۔ جنوبی ہند میں تو یہ روایت ابھی بھی جاری وساری ہے۔ برہما کے سر سے پیداہونے والے برہمن توہمیشہ سے اس روایت کے حق میں رہے ہیں۔ ساکشی جی ہندوستانی مسلمان کو دل تو بہت چاہتا ہے کہ اس تحریک میں مسلمان آپ کی عملی مدد کریں۔ مگر آپ کی سرکار نے تواتنی دوری بنا رکھی ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔ وہ بیچارہ ذرانزدیکی بڑھاتا ہے تو آپ سب ”لو جہاد“ کی بات کرنے لگتے ہیں اب کیا ”لوجہاد“ یکطرفہ ہوسکتا ہے کیا ایک ہاتھ سے تالی بج سکتی ہے؟ تعصب کودل سے نکالو تو وہ بھی آپ کی پریشانی کو سمجھتے ہیں اور ہر پہلو سے آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں آپ تو خود کہتے رہتے ہیں کہ ہم کو چار سے چالیس پیدا کرنے کی مہارت حاصل ہے؟ ہمارے قریب آﺅ ہم سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرو!
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

یہاں پر ایک رائے رقم کئے دیتے ہیں، بھارت میں ہندوﺅں کی آبادی بڑھانے کے لئے ایک دو تجاویز ضرور پیش کریں گے۔ ابھی ساکشی مہاراج گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ آپ کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ویدک دور میں بھارتی سائنس اتنی ترقی یافتہ تھی کہ طبی طریقے استعمال کرکے سوکوروں کو ایک جین سے پیدا کیا گیا تھا ( ایک بھارتی ٹی وی چینل پر ”مہابھارت“ ٹی وی سیریل میں کوروں پانڈوں کا حال بہت تفصیل سے دیکھایاگیا تھا) میرے خیال میں بھارت کے سائنسدانوں کو جلد ازجلد اس ٹیکنالوجی کو دوبارہ دریافت کرنا چاہئے تاکہ ہندوﺅں کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ لیکن بھارتی سماج میں امن قائم رکھنے کے لئے یہ بات پہلے طے کرلینی چاہئے کہ ٹیوب سے پیداہونے والے بچوں میں کتنے برہمن کتنی چھتری کتنے ویش اور کتنے شودر ہوں گے۔ ان کا باہمی تناسب کیا ہوگا۔ کتنے نر ہوں گے اورکتنی ناریاں؟ آپ کے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ سائنسی انکشاف بڑے یقین اوراعتماد کے ساتھ کیا تھا اس سلسلے میں، اس میں کسی بھی قسم کی شعبدہ گری نہیں ہوسکتی بس صرف ویدک سائنس کو آگے بڑھانے کی بات ہے۔ ایک طریقہ اور ہے ماہرین حیوانیات اورسبھی گائے بھینس پالنے والے اس بات کو جانتے ہیں کہ بھارتی بھینسے اورسانڈ افزائش نسل کے اعتبار سے کمزورہوگئے ہیں اس کے سبب مناسب خوراک کی کمی کیمیکل کا زیادہ استعمال اور پانی کی آلودگی وغیرہ ہیں۔

یہ ہی حال گاﺅ ماتاﺅں کا ہے۔ اس لئے زیادہ دودھ دینے والی امریکا کی جرسی گائیں بھارت میں منگوائی جاتی ہیں تاکہ نسل کو سدھارا جاسکے اورگائیوں اور بھینسوں کو زیادہ دودھ دینے والا بنایا جاسکے۔ اسی طرح طاقتور سانڈ جرمنی سے درآمد کئے جاتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گائیوں کو بارآورکرسکیں اس قسم کے سانڈ بیس سے پچیس لاکھ میں فروخت ہوتے ہیں، اور اپنے مالکوں کو اپنی خصوصی طاقت کے بل پر لاکھوں روپے کماکردیتے ہیں۔ جرمنی سے بھارت کا رشتہ پرانا ہے وہ بھی آریہ تھے اورموجودہ بھارتی بھی جرمنی سے ہی ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہ بھارت کے اصلی باشندے توہیں نہیں۔ اب جب کہ استقرار حمل کیلئے صحبت ضروری نہیں رہی اور سارا عمل ٹیسٹ ٹیوب سے مکمل ہوسکتا ہے توکیوں نہ آپ جرمنی سے اپنے ہزاروں سال پرانے روابط کو استوار کریں۔ اور ایک زیادہ صحت مند خالص آریائی نسل پیدا کریں؟ بہرحال جو بھی حل نکالاجائے جلدی نکالا جائے۔ کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران ہندوﺅں کی پیٹھ پر چھرا گھونپ رہے ہیں، کیونکہ نہ بھاگوت جی کی کوئی اولاد ہے نہ اٹل بہاری واجپائی کی تھی۔

آپ کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اولاد کی جھنجھٹ سے آزاد ہیں۔ بابارام دیو جی ہوں یا سادھوی اوما بھارتی ان سب نے بھی ہندوﺅں کے سامنے کوئی اچھی مثال پیش نہیں کی ہے دوسری طرف مخالف سمت میں ’گھر واپسی‘ شروع ہوگئی ہے۔ مسلمان تو کیا گھر واپسی کریں گے چند روز قبل ہی بہار میں 1700 ہندوﺅں نے ہندودھرم چھوڑ کر بودھ دھرم اخیتار کرلیا۔ وجہ ذات پات کی بنیاد پر ظلم وزیادتی ہی بنا۔ ساکشی جی آپ ایک عورت سے 10 بچے پیدا کرلو پھر بھی پاکستان کا بال بیکا بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ مسلمان کا بچہ پیدا ہوتا ہی ہے اپنے دین اور وطن پر مرمٹنے کے لئے، ساکشی مہاراج بھارت کو سنبھالو ورنہ بھارت جلد ہی کمبوڈیا لاﺅس اورتھائی لینڈ کی طرح بودھ دیش بن جائے گا اورپھر سنگھ پریوار اگلے الیکشن میں نعرہ لگائے گا ”اب کی بار بچے چار“
تم نے تاریخ سے سیکھا ہی نہیں کوئی سبق
تم ذہانت ہی سمجھتے رہے عیاری کو

تحریر: سید ماجد علی
majid.ali1960@gmail.com