تحریر: ڈاکٹر محمد خالد فواد الازہری
معاشرے میں خاندانی مسائل اپنے عروج پر ہیں جن کے باعث عائلی زندگی کافی حد تک مشکل ہو چکی ہے ۔سماج میں طلاق کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان،زبردستی شادیوں کا انعقاد،شادی سے قبل لڑکا لڑکی اور ان کے خاندان کا ایک دوسرے کے خاندانوں کا جائزہ نہ لینا،اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی اور ایسے بہت سے مسائل ہیں۔حال ہی میں راقم نے سورہ حجرات کی ایک آیت کے شان نزول پر بڑاغورو خوض کیا جس کا اولاًترجمہ پیش کیا جاتاہے۔”اگر مئومنین میں سے دوگروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرادوں ،اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو آپ اس گروہ سے جنگ کرو یہاں تک وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ،جب وہ گروہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ صلح کرادو،بیشک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتاہے”۔اس آیت کا پس منظر یہ بیان کیا جاتاہے کہ انصار میں سے ایک مرد نے اپنی بیوی کو گھر میں قید کردیا تھا جب کہ اس نے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت مانگی تھی مگر شوہر نے اجازت بھی نہ دی اور گھر میں محبوس بھی کردیا۔جس پر اس خاتون نے کسی کے ذریعہ اپنے گھروالوں تک پیغام پہنچوایا کہ مجھے شوہر نے گھر میں قید کررکھا ہے لہذا میری مدد کو آئیں۔اس خاتون کے گھر والے اس کو قید سے آزاد کرانے اور اس خاتون کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ایک جماعت لے کرنکلے تو اس کی اطلاع اس کے شوہر کو بھی ہوگئی تو اس نے اپنے اعزہ واقارب کو جمع کیا جس کے نتیجہ میں دونوں گروہوں میں ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کا تبادلہ ہوا،بیان کیا جاتاہے کہ یہ آیت کریمہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی۔
اب ہم اسی واقعہ پر بات کرتے ہیں کہ اول شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے والدین کے ہاں جانے سے منع کیوں کیا اوراگر بیوی کا خاندان یا اس کے گھر والے برے تھے تو سوال پیدا ہوتاہے کہ اس نے ایسی عورت سے شادی کیوں کی؟؟اور اگر وہ شوہر فارغ البال ،اسلامی تعلیمات سے نا آشنا،اخلاقیات سے ناواقف اور تنگ سوچ کا مالک تھا تو خاتون نے اس سے شادی کرنے پر رضامند کیوں ہوئی؟؟ایک آدمی نے کہا کہ ان کی شادی زبردستی کرائی گی ہے تو میں نے ان صاحب سے سوال کیا کہ اگر شادی کے آغاز میں ہی اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کیا گیا تو اب آخر میں اسلام کے ذریعہ حل تلاش کیوں کرتے ہیں؟؟اور باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ” بیشک اللہ فساد و انتشار پھیلانے والوں کے عمل کو درست نہیں کرتا” جس کام کی بنیاد اسلام کی تعلیمات سے روگردانی پر رکھی گئی ہو تو اس کا اختتام لازم جدال و قتال کی صورت میں منتج ہوگا۔
عورت کو اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت نہ دینے کے مسئلہ پر مزید غور کیا تو معلوم ہو اکہ شوہر قطع رحمی کی ترغیب دے رہاہے!!اور مریض شوہرکو عورت کے دل کی کیفیات و احساسات کا اندازہ ہی نہیں ۔جب کہ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں فقہ حنفی میں بیان کیا گیا ہے کہ عورت کو اپنے والدین کے پاس جانے سے کسی صورت منع نہیں کیا جاسکتاخواہ وہ مسلم ہوں یا کافر۔ابن نجیم نے بحرالرائق نے یہاں تک اجازت دی ہے کہ بیوی اس امر میں اپنے خاوند کی نافرمانی کرسکتی ہے،اسی طرح فتح القدیر میں بھی بیان کیا گیا ہے جب کہ فقہ مالکی میں عورت اپنے میاں کی اجازت کے بغیر اپنے ماں باپ کے ہاں جاسکتی ہے۔اگر کوئی مطالعہ کرنا چاہے تو ”التاج والکلیل علی متن خلیل”کا مطالعہ کرسکتاہے۔لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا فقہاء اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب ہوسکے ہیں؟؟؟صاف دل نافرمانی میں اس حد تک جاسکتاہے؟؟بیوی کو ظالمانہ و جابرانہ طور پر قید کرنے کا فعل دین میں سے ہے؟؟اللہ تعالیٰ نے عورت کو بطور سزاقید کرنے کی اجازت صرف ایک صورت میں دی ہے ۔قرآن میں ذکر ہے کہ”اگر کوئی عورت بے حیائی کا ارتکاب کرے اور تم میں سے چار گواہ اس پر شہادت دیں تو اس عورت کو گھر میں قید کردیں یہاں تک کے وہ اسی حالت میں موت تک پہنچ جائے یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکالیں”۔
اپنی بیوی کو تنگی میں مبتلاکرکے یا اس کی زندگی کو دوبہر کرکے کوئی مئومن اللہ کی معرفت کیسے حاصل کرسکتاہے؟؟اور پھر اس خاوند کے بچے کیا کہیں گے اور سوچیں گے کہ ان کی والدہ کو قید کیا گیا تھا؟ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مردوں کو اس طرح کا رویہ اور معاملہ زیب نہیں دیتا۔عائلی مسائل معاشرے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں جیسے مکہ کی عورتوں کو مردوں پر چنداں قوت حاصل نہیں تھی جب کہ مدینہ کے معاشرے و ماحول میں عورت کے پاس طاقت و قوت کا عنصر موجود تھا۔حضرت عمر فاروق سے حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہ”جب ہم مدینہ آئے تو دیکھا کہ عورتیں مردوں پر غلبہ رکھتی تھیں”۔اسی لیے خاندانی مسائل زمان و مکاں کے ساتھ مختلف ہوتے ہیں لیکن اسلام نے ما سبق واقعہ کو بیان کرکے یہ واضح کردیا کہ ایسا عمل اسلامی تعلیمات کا حصہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔تو معلوم ہوا کہ خاندانی مسائل سے نجات کا واحد حل اسی میں ہے کہ شادی بیاہ کے انعقاد سے قبل جانبین مکمل ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کا جائزہ لے کراعتمادپیدا کریں اور شادی کے انعقاد کے وقت سے ہی اسلام کے احکامات و رہنمائی کا پاس ولحاظ رکھیں تو طلاقوں کی شرح میں بھی کمی آسکتی ہے اورمسلم معاشرے میں مروجہ میاں بیوی کے مابین چپقلش سے بھی دائمی نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
تحریر:ڈاکٹر خالد فواد الازہری
khalidfuaad313@gmail.com
03135265617