جسٹس انور ظہیر جمالی بطور چیف جسٹس پاکستان آج ریٹائر ہو رہے ہیں، وہ ایک سال ، 3 ماہ تک عہدے پر فائز رہے، اس دوران متعدد اہم مقدمات سپریم کورٹ میں آئے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے بطور24ویں چیف جسٹس پاکستان گزشتہ برس 10ستمبر کو عہدہ سنبھالاتھا، انہوں نے اس دوران عوامی مفاد میں کئی ازخود نوٹس بھی لیے ، پانامہ کیس پر ان کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے فیصلہ نہ ہوسکا اور اس کی سماعت اب جنوری میں از سر نو ہو گی ۔پانامہ کیس کی 10اہم سماعتوں کے باوجود چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نہ تو تحقیقات کے لیے کمیشن بنا سکا اور نہ ہی کوئی حتمی فیصلہ دے سکا، اپنی ریٹائرمنٹ کے باعث جسٹس انور ظہیر جمالی کو پانامہ کیس نئے سال تک ملتوی کرنا پڑا ۔سٹس انور ظہیر جمالی نے ایک سال 3 ماہ کے دوران عوامی مفاد میں 16سے زائد ازخود نوٹس لیے ، ایک ازخود نوٹس کے باعث ہی وفاقی حکومت نے 15مارچ 2017سے ملک میں18سال سے نہ ہونے والی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ، لوٹی گئی دولت رضاکارانہ واپس کرنے پر ملزم کو کلین چٹ دینے سے متعلق چیئر مین نیب کا اختیار بھی معطل کیا۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں5رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مبینہ دہشت گردو ں کی 17اپیلیں بھی مسترد کیں ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے بطور چیف جسٹس وزیر اعظم کی طرف سے 1956کے قانون کے تحت کمیشن بنانے کی درخواست یہ قرار دیتے ہوئے منظور نہ کی کہ یہ ٹوتھ لیس کمیشن ہو گا ۔ان کے دور میں سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کی کوشش تو ہوئی لیکن اس کا بھی کوئی حتمی نتیجہ نہ نکل سکا ۔جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے پانچوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تقریبا 41ججز کی تعیناتیاں کیں ۔وہ ان ججز میں شامل ہیں جنہوں نے 2007میں پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ، ان کی اہلیہ بھی سندھ ہائی کورٹ کی جج ہیں ۔