تحریر: ابوالہاشم ربانی
خانہ کعبہ دنیا میں پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کے لیے مرکز کی حیثیت سے بنایا گیا۔ قرآن مجید میں اس کی گواہی سورة آل عمران میں کچھ یوں وارد ہوئی کہ ”بلا شبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے”۔ حج کی فرضیت کا مقصد بھی یہی ہے کہ تقویٰ کی روح پیدا ہو، نفس کا تزکیہ ہو اور اپنے رب سے ایسا تعلق قائم ہو جائے جو اس کی اطاعت، اس کی بندگی اور اس کی محبت کو ہر چیز پر غالب کر دے۔ ”رسول اکرم ۖ نے اپنے تاریخی خطبہ حج جسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں منشور انسانیت ارشاد فرمایا : ” اے لوگو!بے شک تمہارا رب ایک ہے اورتمہاراباپ بھی ایک ہے۔ سنو!کسی عربی کو عجمی پراورکسی عجمی کوعربی پرکوئی فضیلت نہیں، نہ ہی کسی سرخ کوسیاہ پراور نہ کسی سیاہ کو سرخ رنگ والے پرفضیلت حاصل ہے ہاں مگرتقویٰ کی بنیادپر ”۔
دنیا بھرسے حجاج کرام مکتہ المکرمہ میں جمع ہیں، ہرایک کی اپنی رنگت، حسب نسب ، شکل وصورت اورشناخت ہے، جداجدا قد و قامت، زبان، عادات وخصائل مخصوص، سب کا کھانے اورپینے کاانداز اپنا، رہنے سہنے اورزندگی گزارنے کے طورطریقے جدا جدا ہونے کے باوجودان کو آپس میں ایک ہی چیزجوڑتی ہے وہ ہے دین اسلام۔ یہاں سب ایمان کی خوشبو سے معطر حرمین شریفین کی محبت وعقیدت میں جڑے ہوئے ہیں۔ اللہ اکبرکی آوازپرلپکتے ہوئے لاکھوں مسلمان ایک ہی امام کی اقتدامیں قیام وسجودکرتے، آہیں لیتے ،سسکیاں بھرتے ، آنسو بہاتے مناجات و دعائیں کرتے ہیں۔ اتنے بڑے اجتماع میں دھکے بھی لگتے ہیں، سجدے میں پڑے ہوئے کو ٹھوکربھی لگ جاتی ہے، ایک دوسرے پرگربھی جاتے ہیں مگراخلاقیات اورعفوودرگزرکاکمال مظاہرہ ہے کہ نہ کسی سے شکوہ ہے نہ کسی سے گلہ۔ یہاںکوئی کسی کا نام نہیں جانتا اور نہ کسی دوسرے کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ اس سب کے باوجود محبت وشفقت ،صلہ رحمی ،حسن سلوک اورباہمی تعلق داری کی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں گیں کہ دل بھر آئے اور آنکھیں نم ہوجائیں۔ ان محبتوں اورالفتوں کاوہی اجرعطافرمائے گا جس کے لیے یہ سب محنت اورمشقت کی جاتیں ہیں۔ یہ گلشن رسولِ رحمت ۖکاہے ۔ اس کی کس کس شاخ ، پھول یا کلی کا تذکرہ کرو ں ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔
دعائوں، حاجات اورآرزوئوں کی قبولیت کاسب سے بڑامرکزبیت اللہ شریف جہاں جا بجا آنسوئووں، آہوں اورعجزوانکساری سے اپنے گناہوں پرشرمسار ی کااحساس بھی نظرآتا ہے۔ بہت دیکھا بہت سنا یقیناتونے اپنی رحمت سے بہت کچھ عطا بھی کیامگر یارب اکبر! وہ رعب ِمحمد ۖ اور غلبہئِ اسلام کی للکاریہاں دیکھائی نہیں دیتی۔ صدیق وفاروق کی عالم کفرپرہیبت کہاں ہے؟ رسول اللہ ۖ کاایک ماہ کی مسافت تک اپنے دشمنوں پررعب تھا، وہ کہاں ہے آج؟ 9 سن ہجری میں حج کی فرضیت کے بعدنبی کریم ۖنے جناب ابو بکر صدیق کوپہلا امیرحج مقررکرکے مدینہ منورہ سے روانہ فرمایابعدمیں سورة التوبہ نازل ہوئی تو جناب علی المرتضی کوحکم دیاکہ حج کے موقع پراس سورت میں نازل ہونے والے احکاما ت کااعلان اورنفاذکردیں۔ چنانچہ سیدنا علی نے حضرت ابوبکر صدیق امیرحج کی معیت میں سورة التوبہ پڑھ کرسنائی”جن مشرکوں (کافروں) سے تم نے معاہدے کررکھے تھے اب اللہ اوراس کارسول ایسے تمام معاہدوں سے بری (ختم کردیے) ہیں” آئند ہ سال خودجناب محمدکریم ۖتشریف لائے حج کے مناسک یعنی طریقہ حج اُمت کونہ صرف سکھلایابلکہ خودسارے مناسک اداکرکے دکھلائے۔ خطبہ حجة الوداع کے نام سے معروف خطبہ ارشاد فرمایاجس کے چنداقتباسات قارئین کی نظرکرتاہوں: ” تمہاراخون، تمہارے مال، تمہاری آبروایک دوسرے پراسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن، موجودہ مہینے اورموجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو!جاہلیت کی ہرچیزمیرے پائوں تلے رونددی گئی ہے۔ جاہلیت کاسودختم کردیاگیاہے۔ عورتوں اورغلاموںکے حقوق تمہارے سب کے برابرکردیئے گئے ہیں”۔
مدینہ منورہ سے نکلنے والے وہ لشکر جنہوں نے ظلم واستبدادکی زنجیروں کوکاٹ کر انسانیت کو” انسانی خدائوں” کے چنگل سے آزادکرایا۔ مظلوم ومقہورسسکتی انسانیت کو امن و سلامتی کاگہوارہ بنایا،حوا کی بیٹی کی نیلام ہوتی عفت وعصمت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے مقدس رشتوں سے جوڑا اور ستر وحجاب کے آسمانی قانون سے تحفظ فراہم کیا۔ خود ساختہ معبودوں اور جھوٹے خدائوں کوپاش پاش کرکے ان کے ظالمانہ نظام کو جس میں انہوں نے انسانیت کوذلت ورسوائی میں جکڑ رکھا تھا، اسے توڑکرانسانوں کوعبادالرحمن بنایااور اللہ عزوجل کی توحید کاپرچم چہار سو عالم لہرادیا۔ آج وہ سپاہ مصطفی ۖ اوراس کامیرکارواں کہاں ہیں؟
حجاج کرام دوران حج تلبیہ کے مبارک کلمات پڑھتے ہیں: ” لبیک اللھم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک” میں حاضر ، اے اللہ میں حاضر، میں حاضرتیراکوئی شریک نہیںمیں حاضر” ”ان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لک” اے اللہ! حمدوکبریائی تیری ہے، نعمتیں تیری ہیں، لازوال بادشاہت تیری ہے، تیراکوئی شریک نہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول مکرم ۖ نے اللہ عزوجل کی مدد کا وعدہ پورا ہونے پر شکرانے کے جو کلمات پڑھے حاجی بھی سعی کے ہر چکر میں تین بار وہ پڑھتے ہیں۔” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیںہے وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی۔” وقوف عرفات میں سب سے بہتردعااورسب سے بہترکلمات محمد کریم ۖاورآپ سے پہلے انبیا ء علیہم السلام کی دعا”لہ الملک ولہ الحمد” نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ آنسوئوں کے ساتھ اس کاذکربھی کرتے ہیں۔ صرف حجاج کرام نہیں ہر مسلمان ہرفرض نماز کے بعد، صبح و شام کے اذکاراوربازارمیں داخل ہوتے ہوئے یہی کلمات ”لہ الملک ولہ الحمد” پڑھتاہے۔ یعنی اقرارکرتے ہیںکہ اللہ تیر ی ہی بادشاہت اورتیری ہی حمدہے۔ کیایہ کلمات ہمارے دل پرچوٹ کیوں کر نہیں لگاتے؟ بیت اللہ اور مسجد حرام میں ایمان ویقین اورعزم واستقلال سیدنابلال ،جناب صہیب رومی اورسیدہ سمیہ نے پیش کیا، وہ ہمارے دلوں میں کیوں بیدار نہیں ہوتا؟مسجدنبوی میں رسول اللہ ۖکی اللہ کے دشمنوں کے خلاف نفرت وللکاراورصحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین کی یلغارہم میں کیوں پیدانہیں ہوتی؟ خطبہ حجة الوداع میںرسول اکرم ۖنے خون مسلم کی جوحرمت بیان فرمائی آج مسلمان ہی مسلمان کوقتل کرکے اس حرمت کوکیوںپامال کررہاہے؟ آج ہمارے دلوں میں کفارکے رسم ورواج، تہذیب وتمدن، سیاسی اورسودی اقتصادی نظام کے خلاف نفر ت کیوں نہیں پیداہوتی؟ ہماری حالت تویہ ہے جیسے حج سے پہلے گئے تھے ویسے ہی واپس لوٹ آئے۔
ہاں استقبال کرنے والو ں نے ہمارے گلے میں پھولوں کے ہار اورہمارے اوپرپتیاں ضرور نچھاور کیں۔ مگرہم میں حج سے پہلے اورحج کے بعدکوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ صرف وہاں ہی نہیں اپنے علاقوں میں پہنچ کرپہلے ہی کی طرح گم ہوگئے، حج کرنے والے اوراس سعادت کو حاصل نہ کرنے والے دونوں میں کوئی فرق نظرنہیں آتا۔ زیارت کرنے گئے تھے کرکے واپس آگئے اورپھراپنی دنیا میںمست اور خواب غفلت میں چلے گئے ۔ ایمان ویقین، صوم وصلوٰة، کردار، اخلاق اورمعاملات کیسے ہیں کوئی پرواہ نہیں۔ اسلام پہ کیابیت رہی ہے؟ اُمت کیسے کٹ رہی ہے؟ مسلم ممالک اوراملاک کیسے نیست و نابو د ہورہے ہیں؟ ملت اسلامیہ کی نسل کُشی کیوں ہورہی ہے؟ اسلام اورملت کے دکھ نجانے کون بانٹے گا؟ آخر حج کا پیغام کیا ہے …؟؟؟
حجاج کرام نبوت کی مقدس زبان سے نکلے کلمات ”لہ الملک لہ الحمد” کی لاج رکھیں۔ خواہشات، لسانیت، غیروں کی تہذیب وتمدن، سودی معیشت ، کفارکی معاشرت اورفرقہ پرستی جیسے جھوٹے ”معبود ”توڑ دیں۔ قومیت جیسے جعلی خدا پاش پاش کردیں۔ اپنا طرززندگی ، اہل وعیال، کاروباراورخوشی غمی سنت رسول ۖ سے مزین کریں۔ گھروں اورمعاشرے کوعطراسلام سے مہکائیں تاکہ ہرطرف اسلام کی خوشبوپھیلے۔ مسلم حکمران و قائدین بیدارہوجائیں، اپنے دشمن اور دوست کی پہچان کریں، کفارکے ہرکارے نہ بنیں۔ اسلام کے نمائندے اوررسول عربیۖ کے وارث بنیں، شوکت اسلام اورغلبہ اسلام کے لیے اُمت کومتحدکریں۔ حق اورسچ تویہ ہے کہ سب مسلمان ایک اُمت، ایک جھنڈے، قرآن و سنت کے ایک آئین و دستوراورایک پالیسی پرمتفق ومتحدہوں۔ مسلمان مسلم عالمی اتحاد، عالمی اسلامی فوج ، مسلم ورلڈبینک قائم کریںاوردرہم ودینارکوعالمی اسلامی کرنسی بنائیں۔
مسلمانوں کے باہمی مسائل اورغیرمسلم ممالک سے تعلقات کے لیے عالمی اسلامی سیکیورٹی کونسل کاقیام کریں۔ مکة المکرمہ جو مرکز نزول اسلام اورتکمیل اسلام ہے جبکہ مدینہ منورہ جو شوکت اسلام کامرکزاورمحورہے کو عالم اسلام کا ہیڈکوارٹر بنائیں۔ تمام مسلم سربراہان اس کاانتظامی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ عالم اسلام کے تمام معاملات اورمسائل کونہ صرف کنٹرول کریں بلکہ ان کوقرآن وسنت کی روشنی میں اجتماعی مشاورت سے حل کریں۔ تمام مسلمان حکمران حج میں شریک ہوں، وہاں اپنا سالانہ اجلاس منعقدکریں۔ عالم اسلام کی سیاسی،اقتصادی اور تمام ترمعاملات کی متفقہ اور سالانہ پالیسی کااعلان کریں اور باقی دنیاکے ساتھ معاملات اورتعلقات کاجائزہ بھی لیں۔ مسلم ممالک کے معدنی وسائل اورذخائرکوخودکنٹرول کریں۔ اسلامی عالمی منڈی قائم کی جائے جس میں باہمی تجارت کوفروغ اور ویزہ پالیسیاں بھی نرم کریں۔ مسلمان بھائی بھائی ہیں توتمام اسلامی ممالک کے درمیان سرحدوں کے کالے قانون ختم کریں۔ جسدواحدبن کرعالمی حالات اورچیلنجزکامقابلہ کریں، اسلام کی قوت اورطاقت کھڑی کریں، رعب مصطفی ۖ اورہیبت فاروقی کازمانہ پھرپیداکریں۔ رسول ہاشمیۖ کی اُمت کو منظم اور مربوط کرکے غلبۂ اسلام کا پرچم لہرائیں، جس کے سایہ میں انسانیت کے حقوق اورمسائل کاتحفظ ہو۔ دنیاکوعدل وانصاف اورامن وسلامتی کا گہوارہ بنائیں۔ قسم ہے اس رب کائنات کی جس نے محمد کریم علیہ السلاة و وسلام کورسول بناکرمبعوث فرمایا،جس رب نے کل مددکی تھی اورلشکروں کوشکست دی تھی وہ ہی رب آج بھی وعدے کاپکا، حقیقی مددگاراورلشکروںکوشکست و ریخت سے دوچارکرنے پرقادرہے۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہئِ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی ! خاک میں اس بت کو ملا دے
تحریر:ابوالہاشم ربانی