ہندوستان میں نریندر مودی کی حکومت نے دلی کا تین سو ستر سال پرانا تاریخی لال قلعہ ایک نجی کمپنی، ڈالمیا بھارت کو 25 کروڑ روپے کے عوض پانچ سال کے ٹھیکہ پر نیلام کر دیا ہے۔ مودی سرکار پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہندوستان کے اس تاریخی قلعہ سے قدیم تاریخی عمارتوں کی نج کاری شروع کر رہی ہے، جس پر ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلی بار قومی پرچم لہرایا گیا تھا اور ہر سال یوم ِآزادی پر وزیر اعظم اس پر کھڑے ہو کر قوم سے خطاب کرتے ہیں۔
ہندوستان میں اس بات پر تہلکہ مچا ہوا ہے کہ حکومت نے کوڑیوں کے دام، ڈالمیا بھارت کو جو حکمران بھارتیا جنتا پارٹی کو بھاری چندہ دیتی ہے، لال قلعہ میں سیاحوں کے لئے پانی، بیت الخلاء اور دوسرے سہولتیں فراہم کرنے کے لئے پانچ کروڑ روپے سالانہ کے عوض پانچ سال کا ٹھیکہ دیا ہے جبکہ اس وقت سیاحوں کے ٹکٹ سے ہر سال 30 کروڑ روپے آمدنی ہے۔
اس وقت ہر سال 29 لاکھ ہندوستانی سیاح لال قلعہ دیکھنے آتے ہیں جن سے 30 روپے فی کس ٹکٹ سے آٹھ کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ اب تک ٹکٹ صرف دس روپے تھا لیکن اب اضافہ کر کے ٹکٹ 30 روپے فی کس کردیا گیا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں سے ہر سال پانچ کروڑ پچھتر لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں پندرہ کروڑ روپے لال قلعہ کے میوزیم کے ٹکٹوں سے وصول ہوتے ہیں۔ اور چھ کروڑ روپے سیاحوں کی گاڑیوں کی پارکنگ فیس سے حاصل ہوتے ہیں۔
ڈالمیا بھارت کو لال قلعہ ایسی اہم تاریخی عمارت پر اپنے اشتہاری بورڈ آویزا ں کرنے سے اندازہ ہے سات کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حزب مخالف کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ مودی حکومت نے ڈالمیا بھارت کو کوڑیوں کے دام لال قلعہ ٹھیکہ پر دے دیا ہے۔
تاریخ دانوں کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ سیاحوں کو لال قلعہ کی تاریخ کے بارے میں جو معلومات فراہم کی جائیں گی اس میں تاریخی غلط بیانی کا شدید خطرہ ہے۔ آج کل تاج محل اور قطب مینار ایسے تاریخی ورثہ کے بارے میں منظم طور پر جو غلط بیانی ہورہی ہے اور تاریخ دوبارہ لکھنے کی کوشش ہورہی ہے اس کے پیش نظر تاریخ کے مسخ ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ بہر حال یہ مودی سرکار کی طرف سے قدیم تاریخی عمارتوں کی نج کاری کا آغاز ہے۔