تحریر: ساجد حسین شاہ
دہشت گردی ایک ایسا روگ ایک ایسی بیما ری جو ہمارے ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے جسکی ایک اہم وجہ سزا ئے موت کا نہ ہونا تھا ویسے تو قا نون برقرار تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا کیونکہ یورپی یونین کے دبائو پر 2008 میں پیپلز پارٹیجو کے حکومت وقت تھی اس پر عملدرآمد بند کر دیا۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) نے اس وقت تو اس فیصلے کی بڑی مخا لفت کی لیکن جب 2013 کے الیکشن میں عوام نے انھیں منتخب کیا تو وہ بھی اس فیصلے کے خلاف کچھ نہ کرسکی اب جب کہ ہم ایک ایسے دردناک سانحے سے دوچار ہوئے جسمیں 149سے زائد افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے جس میں اکثریت بچوں کی ہے تو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے سزائے موت کو بحال کر نے کا اعلان کر دیااس وقت پاکستان سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے سر فہرست ہے کیو نکہ پچھلے چھ سال سے اس پر عمل نہیں ہو رہا تھا۔
عدالتیں ان مجرموں کو جو سزائے موت کے حق دار تھے سزا ئیںسنا تی گئیںاور اسطرح ان قیدیوں میں اضا فہ ہو تا چلاگیا اس وقت آٹھ ہزار سے زائد مجرم سزائے موت کے منتظر ہیںجو ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں ان مجرموں کے لیے جو سیل بنایا جاتا ہے12 8 xفٹ کا ہو تا ہے یہ سیل ویسے تو دو قیدیوں کے لیے بنایا جا تا ہے لیکن قیدیوں کی زیادتی کی وجہ سے اس وقت ہر سیل میں چھ سے زائد قیدی موجود ہیںیہ قیدی دہشت گردی،اقدام ِقتل اور دوسرے کئی سنگین جرائم میں ملوث ہیں وزیر اعظم کے اعلان کے بعد اس پر بڑی تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے کچھ کو سزائے موت دی جا چکی ہے اور باقی ماندہ دہشت گردوں کو انجا م اجل تک پہنچا نے کا کام جاری و سا ری ہے ہما ری جیلوں میںدہشت گردوں کے علاوہ بہت سارے دوسرے جرائم پیشہ افراد بھی ہیں جو سزا کے منتظر ہیںجن میںسر فہرست کراچی کے ٹار گٹ کلرز ہیں اس لیے حکومت کواس عمل میں اُن لوگوں کو بھی اسی تیزی سے شامل کر کے انہیں بھی کیفرکردار تک پہنچانا ہو گا تا کہ ملک میں جرائم کی شرح میں کمی آ سکے ان مجرموں میں بہت سے پچھلے 18 سے20سال سے قید ہیں جسکی وجہ ہماراعدالتی نظام اور پولیس کے تحقیقاتی نظام کی کمزوری ہے با اثر لوگ رشوت دے کر ایف آئی آر میں ایسی قا نونی پیچیدگیاں پیدا کرد یتے ہیں جو مقدمے میں ملزموں کے لیے بہت سی آ سا نیا ں پیداکر دیتی ہیں دہشت گر دی کی اس جنگ میں ہمیں اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا افواج پا کستان کے کامیاب آ پریشن کے سا تھ ساتھ اپنے تحقیقاتی نظام اور عدالتی نظام کو بہتر بنا نا ہو گاتا کہ دہشت گرد اور دوسرے جرائم پیشہ لوگوں کو فورا سزا ئیں سنائی جا سکیں ناقص نظام کا فا ئدہ ہمیشہ با اثر لو گ اٹھاتے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے اگر ہم واقعی اپنے ملک سے جرائم کا خا تمہ کرنا چا ہتے ہیں تو ہمیں اپنا یہ نظا م ٹھیک کر نا ہو گا۔
موت کی سزا نہ ہو نے کی وجہ سے ہما رے ملک میں دہشت گردی اور دوسرے جرائم میں خاطر خواہ اضا فہ ہو اایک انٹر نیشنل سروے کے مطابق 2006میں 657افراد دہشت گردی کا شکار ہو ئے2007 میں 1,503اسطرح2008 میں148 2,اور 2010 تک 35,000 ہزار سے زائدافراد دہشت گردی کا شکار ہو چکے تھے اور اب تک یہ تعداد 50,000 سے تجاوز کر گئی ہے کسی بھی معاشرے میں اصلاح کا پہلو سزا کے بغیر متعین کرنا نا ممکن ہے ہمارا دین اسلام جو کہ کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہر جرم کی علیحدہ علیحدہ سزا مختص کر تا ہے اسی طرح کسی کا خون کرنے کی سزا خون کے بدلے خو ن یعنیی ا گر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے اور مقتول کے ورثاء اسکو معاف نہ کر نا چا ہیں تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دو۔ ہماری پاک سر زمین کو تو ان دہشت گردو نے لہو لہان کر دیا ہے تو ہم بھی انہیں نہیں معاف کرتے اس لیے انہیں بھی موت کے گھاٹ اتر دیا جا ئے انکی حا لیہ گھنائونی حرکت نے تو ہما رے دل چیر دیے ہیں ہمیں ریزہ ریزہ کر دیا ہے انہوں نے یہ حملہ اتنی آ سا نی سے جو کیا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ انکا کوئی نہ کو ئی سہولت کاریا انکے ساتھی اس علا قے میں موجود ہیں جنہوں نے انھیں اس کے بارے میں معلومات فراہم کیں ایسے لوگوں کے لیے بھی سزا تجویز کر نا ہو گی آج پوری قوم کا حکومت سے بس یہی مطالبہ ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے تمام سہولت کا روں کو نہ صرف پھا نسی دی جا ئے بلکے سر عام چوراہوں پر لٹکا کر عبرت کا نشان بنایا جائے تا کہ آ ئندہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے انھیں اپنے انجام کا بخوبی اندازہ ہو۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ ناصر الملک نے پشاور ہائی کورٹ کا دورہ کیا اور سانحہ پشاور میں شہید ہو نے والوں کے ورثاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا انکا کہنا تھا کہ یہ انتہا ئی دل لرزش واقعہ ہے اور سزائے موت پر عملدرآمد کر کے ہم ایسے واقعات میں خا طر خواہ کمی حا صل کریں گے انشاء اللہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچو دھری نے بھی اسے بربریت کی مثال قراردیا اس واقعہ میں ملوث افراد کو چن چن کر سزا دی جا ئے انکا کہنا تھا کہ سزائے موت پر پا بندی غیر آ ئینی تھی اگر سزائے موت پر پا بندی غیر آ ئینی تھی تو ہماری حکومت نے اس پر عمل کیوں کیا صرف چند ڈالر یا پائونڈ کے لیے جن کی قیمت ہمارے لوگوں کی جان کی قیمت سے زیادہ ہے؟ کیا حکومت سزائے موت پر پھر سے پا بندی لگادے گی کیونکہ یورپی یونین تو ا پنے موقف پر اسی طرح قائم ہے۔
امن قا ئم رکھنے کے لیے ہمیں اپنے آئینی قوانین پر بغیر کسی بیرونی دبائو کے عمل کر نا ہو گا ہمیں اپنے ملک کو کس طرح پر امن رکھنا ہے اس کا فیصلہ ہم خودکر یں گے اور جب انشائاللہ ہمارا ملک پر امن ہو جا ئے گا تو ہم نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے بلکے یہی یورپی یونین با قی ممالک جا نے کے بجا ئے ہمارے ملک آ نے کو تر جیح دیں گیمیری دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور پاکستان کے خلاف نا پاک ارادے رکھنے والوں کو نست ونا بود کر دے۔
تحریر: ساجد حسین شاہ
ریاض سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com