اب لازم ہو چکا ہے کہ ہم قربانی اور زیادتی کا فرق سمجھ لیں۔ قربانی کا درجہ جب حد سے تجاوز کر جائے تو وہ ناانصافی اور زیادتی بن جاتی ہے اور قربانی ہمیشہ اپنوں کے لئے دی جاتی ہے لیکن جب اپنے ہی قربانی لینے لگ جائیں تو وہ ‘قربانی’ نہیں رہتی، ناانصافی بن جاتی ہے۔
قربانی ہمیشہ جان اور مال کی دی جاتی ہے، عزت کی قربانی کون دیا کرتا ہے؟ عزت کی خاطر جان اور مال کی قربانی تو دی جا سکتی ہے۔ مسئلہ اب کچھ اسی طرح کا درپیش ہے کہ اپنوں نے کئی سالوں سے جان اور مال کی قربانی مانگی، اس دیس کے قبائلی علاقوں کے رہنے والے لوگوں نے بغیر کسی شکوے شکایت کے دی ہے لیکن اب جب اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گرانے لگ جائیں تو تشویش تو یقیناً سب کو ہوتی ہے۔
9/11 کی جنگ کے بعد دنیا کو جو دہشت گردی کا چہرہ دکھایا گیا وہ مسلمان کا تھا اور ہمارے ملک کے اپنے لوگوں کو جو دہشت گردی کا چہرہ دکھایا گیا، وہ داڑھی والے ایک پشتون کا تھا۔ اس جنگ میں جتنا قبائلی عوام نے قربانیاں دی ہیں شاید ہی باقی کسی پاکستانی نے اس قربانی کا تصور بھی کیا ہو۔
اگر آپ سوچ کر دیکھیں تو آپ کو یہ تصور ہی ہلا دے گا کہ کبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر، جون کی تپتی گرمیاں کسی وسیع میدان میں کیمپ بھی گزارنا پڑیں گی اور عیدیں بھی وہی گزریں گی لیکن شمالی قبائل کے عوام نے یہ قربانی دے کر دیکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہی ملک میں آئی۔ ڈی۔ پی بننا قبول کر لیا، صرف اس لئے کہ ایک پر امن، پرسکون، عزت دار اور بہتر پاکستان حاصل کر سکیں۔ پوری دنیا کی کل پشتون آبادی میں سے پچاس فیصد پشتون پاکستان میں آباد ہیں اور پاکستان ان کی نمائندگی کرتا ہے۔
جب نقیب کا واقعہ ہوا تھا میں نے تب بھی لکھا تھا کہ اگر اس معاملے کو باقی معاملوں کی طرح تخت کے نیچے دبانے کی کوشش کی گئی تو یقیناً اس کے اثرات ہوں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ جس کا آغاز 2014ء میں ہوا تھا اور اس میں صرف بائیس افراد شامل تھے، اب اس قافلے میں ہزاروں لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ اس تحریک کے بانی کا نام منظور پشتین ہے جس کہ عمر صرف 24 سال ہے اور جسے آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کے سربراہ ونڈرفل بوائے بھی کہہ چکے ہیں۔ نقیب کے کیس نے اس تحریک کو ایک نئی جہد بخشی۔
راؤ انوار جو کہ 400 سے زائد ماورائے عدالت قتل میں مرکزی ملزم ہے، وہ کئی دن تک ریاستی اداروں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتا رہا، پھر اچانک عدالت میں پیش بھی ہو گیا اور اسے فائیو اسٹار ٹریٹمنٹ بھی مل گیا۔ جس دیس میں پتنگ چوری کے جرم میں ننھے بچوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے، اسی دیس میں جب ایک قاتل کو اس طرح کا ٹریٹمنٹ دیا جائے گا اور جب کہ اس کیس کا سو موٹو اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے لیا ہواور برامد کچھ بھی نہیں ہوا تو تفریق کا سوال اٹھنا تو ایک لازمی امر ہے؟
وہ تحریک جو کچھ دن پہلے تک قبائلی علاقوں تک ہی محدود تھی اب پورے پاکستان میں گونج رہی ہے۔ صد حیف کے آج سے تین روز قبل ہونے والے اس عظیم الشان جلسے کو اس ملک کے نام نہاد آزاد میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا۔ یقیناً یہ کام کسی حکومت کے بس کا تو بالکل نہیں ہے، یہ کام تو سپریم ادارے ہی کروا سکتے ہیں۔
اس تحریک کے مطالبات یہ ہیں، جتنے بھی ماورائے عدالت قتل ہوئے ان پر ایک کمیشن بنایا جائے اور ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ وہ لوگ جو کہ غائب کر دئیے گئے ہیں یا لاپتہ ہیں، ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اگر کوئی گناہ گار ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ پشتونوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ فاٹا کو بنیادی حقوق دئیے جائیں، ایف۔ سی۔ آر کے قانون کو ختم کیا جائے اور انہیں بھی روشن پاکستان میں حصہ ڈالنے کا موقع دیا جائے۔ شمالی علاقہ جات میں چیک پوسٹوں پر پشتونوں کی تذلیل بند کی جائے اور ان چیک پوسٹوں کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔ شمالی علاقہ جات میں مائنز بچھائے گئے، جنہیں آپریشن کے بعد صاف نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کا شکار ہو کر زخمی ہوئے ہیں۔ ان مائنز کو فوری طور پر صاف کیا جائے۔
اس ملک میں سالانہ 3000 سے زائد افراد ماورائے عدالت قتل کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھا جائے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ آج کا نہیں بہت پرانا ہے۔ جس پر سیاست ہر سیاست دان نے کی لیکن اس پر عملی اقدامات کوئی بھی نہ کر سکا۔ ضروری ہے کہ اب ہم اس معاملے کی طرف توجہ دیں،آئین جس کو ہم نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اس پر بھی عمل درآمد کریں۔
پشتونوں کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جانا بند ہونا چاہئیے کیونکہ رنگ نسل، مذہب، فرقہ، ذات، علاقہ، کسی بھی شخص کی بے گناہی اور گناہ گار ہونے کا ثبوت نہیں ہوتے۔ فاٹا کو پختونخواء میں ضم کرنے کے لئے بل حکومت نے اسمبلی میں پیش کیا مگر اس کے اتحادی اس بل کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان جن کا فاٹا میں کوئی اسٹیک ہے ہی نہیں اس فاٹا کا مائی باپ بننے کی کوشش کی اور بل کو تاخیر ہوئی اور حکومت کو تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ایف۔ سی۔ آر کے قانون کی وجہ سے فاٹا کے عوام، ‘دلیل، اپیل اور وکیل’ جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اس لئے اس قانون کو ختم کر کے لوگوں کو حقوق دئیے جانے چاہئیں۔
قبائلی علاقہ جات میں ہر 750 میٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ آتی ہے۔ جس پر مقامی لوگوں کو اعتراضات ہیں، کہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑا کر کے ذلیل کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ نفرت اور حقارت والا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ چیک پوسٹیں بنیادی طور پر پشتونوں کے رہن سہن، ثقافت کے بالکل منافی ہیں۔ ضروری ہے کہ فوج اس پر اپنا کنڈکٹ درست کرے اور اپنے افسران اور سپاہیوں کو پابند کرے کہ ہر شہری کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آیا جائے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چیک پوسٹوں کو فوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وہاں موجود افسران اور سپاہیوں کی تو کلاس لی جا سکتی ہے۔ پشتون اس معاملے میں بھی تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے خود کو اس ماحول کے مطابق ایڈجیسٹ کیا ہے، ورنہ بڑے شہروں میں رہنے والے ہم جیسے لوگوں کو، سڑک پر اگر وارڈن روک لے تو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے اور ہم فورا ً کسی طاقتور شخصیت کو فون کروا کر اس اہلکار کو ذلیل کروانا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
مائنز کی صفائی کا معاملہ وہ واحد مطالبہ ہے، جس پر کام شروع ہو گیا ہے اور منظور پشتین نے اس پر کھل کر عسکری اداروں کی تعریف بھی کی ہے لیکن باقی مطالبوں پر تو خاک اڑ رہی ہے، ان کو سننے پر کوئی تیار ہی نہیں۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس جلسے میں بہت سخت باتیں بھی کی گئیں جو کہ نہیں کی جانی چاہئے تھیں۔ لیکن سوال یہ ہے وہ ٹرم جو بہت عرصے سے سنتے آرہے ہیں، قومی دھارے میں شامل کر لیا گیا۔ ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جاتا؟ کیونکہ جیسے ہی ان کو ریاست کی طرف سے توجہ ملے گی جو چندہ چندہ انتہا پسندانہ نظریات ہیں، وہ اس کے ساتھ ہی دم توڑ جائیں گے۔
ضروری ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں کیونکہ جن اقوام نے ایسے واقعات کو نظرانداز کیا، ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ شام جو آج خون اور آگ کا دریا بنا ہوا ہے، اس جنگ کی ابتداء بھی ایک چھوٹے سے واقعے سے شروع ہوئی تھی۔ جب چند لڑکوں نے دیواروں پر انقلاب پسند نعرے لکھ دئیے تھے اور ان کا ریاست کی جانب سے تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تو کیوں ہوا؟ وہ تحریک بھی تو چھوٹے چھوٹے تنازعات سے ہوتی ہوئی سکوطِ ڈھاکہ جیسے سانحے تک پہنچی تھی۔ اس معاملے میں ہر صورت پہل ریاست کو کرنی چاہئے تھی مگر ابھی بھی وقت گزرا نہیں ہے۔ ابھی بھی معاملات احس طریقے سے حل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر پشتونوں کی محرومیاں دور نہ کی گئیں اور ان کی فریادوں کو نہیں سنا گیا تو ریاست اور ان لوگوں کے درمیان فاصلہ بڑھے گا جو کہ اس ملک کے حق میں کسی صورت بہتر نہیں ہو گا۔
اختتام پر وہ لوگ جو کہ اداروں کی اندھی محبت میں پاگل ہو چکے ہیں کہ ہر چیز کو بغیر سمجھے سازش قرار دے کر ہر ایک کو غدار قرار دے دیتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جس ملک میں عاصمہ جہانگیر کو غدار کہا جاتا ہو، اس ملک میں ہم غدار کو تہمت نہیں اعزاز جانیں گے!
بقول عاطف توقیر،
بھوک غدار ہے
بھوک میں پیٹ پہ ہاتھ رکھنا گناہ ہے
پیاس غدار ہے
پیاس میں آسمانوں کو تکنا گناہ ہے
لفظ غدار ہے
سچ میں لپٹے ہوئے ، جستجو کے نئے راستے کھولتے ہوئے لفظ غدار ہیں
سچ بھی غدار ہے
فہم و ادراک دیتا ہوا سچ کسی دوسرے ملک کا جاسوس ہے
خواب غدار ہے
زندگی کو نئی کروٹ بخشنے والے سارے تصور ، نئی جستجو کی قرینے ، نئے راستے پر اٹھائے گئے سب قدم ، سب سوالات غدار ہے ،
وقت غدار ہے
وقت کا سازوآہنگ بھی ، اور نئی لے پہ اگتی صدائیں بھی غدار ہیں
بھوک کی راج پر
خوف کے آج پر
غم کے آواز پر
ناچنے والے سارے مداری محب وطن
دیس میں بسنے والے ہر سچ پسند
ظلم و وحشت سے دوری پہ ہر کاربند
سانس لینے کا حق مانگنے والا ہر نوجوان
زندگی کے رمق کھوجنے والا ہر خاندان
سارے غدار ہیں
حاکموں ، سپہ سالاروں ، اشرافیہ کے
اشاروں پہ نہ ناچنے والے
کفار ہیں
اور وہ سارے قلم کار غدار ہیں
جو نگوں سر نہیں
آیت مفلسی سے کوئی سرکشی سے
گنبد تشنگی پہ شکایت کوئی
مذہب تیرہ بختی کی توہین ہے
اپنی دھرتی کے غلے سے
اپنی لئے کوئی حصہ طلب کرنا
الحاد ہے
اور ویسے بھی گندم تو
شیطانیت ہی کے ایجاد ہے
بھوک غدار ہے
پیاس غدار ہے