اسلام آباد(ویب ڈیسک)توقع کے عین مطابق قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماوں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی نیب کے مقدمے میں گرفتاری اور نیب کی کارکردگی کے حوالے سے زوردار بحث ہوئی اس حوالے سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے جو نیب کے قیدیکی حیثیت سے قومی اسمبلی کے ایوان میں لائے جاتے ہیں بڑے نپے تلے لفظوں میں اظہار خیال کیا سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس موقع پر جاندار لہجے میں اپنا ماضی الضمیر بیان کیا۔ حکومت کاکہنا ہے کہ نیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں وہ آزاد ادارہ ہے لیکن ایوان میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چوہدری اور وز یر مملکت برائے مواصلات مراد سعید نے نہ صرف نیب کا دفا ع پیش کیا بلکہ وہ نیب کا حوالہ دیکر حزب اختلاف کے ارکان کو دھمکاتے بھی رہے۔ سینیٹ کے بعد بدھ کو قومی اسمبلی میں بھی فواد چوہدری کو مسند نشین کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا جب نسبتاً کم تجربہ کار قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے فواد چوہدری کےبعض اشتعال انگیز اور قابل اعتراض جملوں کو کارروائی سے حذف کردیا اور انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ فواد چوہدری کے ایک کابینائی رفیق کار نے ان کی و ز ا ر ت میں دلچسپی ظاہر کرکے اورعمران خان سے اس بارے میں بات ہوجانے کا ذکر کرکے فواد کو غیرمحفوظ کردیا ہے یہی وجہہے کہ وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے خلاف بے قابو لب و لہجےمیں اظہار خیال پر اتر آئے۔ مراد سعید نے یہ’’ انکشاف‘‘ کرکے گیلریوں اور ایوان کو حیرت زدہ کردیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے سات ارکان نے این آر او حاصل کرنے کے لئے ان سے رجوع کیا تھا اور ان کے بقول سب سے پہلے رابطے کرنے والا اس وقت بھی ایوان میں موجود ہے تاہم انہوں نے کسی رکن کا نام نہیں لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم معروضی حالات میں کسی کو این آر او دینے کا اختیار نہیں رکھتا ایسے میں ایک وزیر مملکت کا دعویٰ کس حد تک درست ہے۔ یہ بجا کہ مراد سعید وزیر مملکت ہیں جنہیں وزیراعظم مکمل وفاقی وزیر کا درجہ دینے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں لیکن یہ سوال مزید اٹھتا ہے کہ حزب اختلاف کے ارکان نے این آر او کی نام نہاد رعایت حاصل کرنے کےلئے ان کے دروازہ کیوں کھٹکھٹا یا ۔ وفاقی وزرا کے بیانات سے یہ خواہش جھلک رہی تھی کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور پر حزب اختلاف کے تمام ارکان کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا جائے ۔ حزب اختلاف کے ارکان کی طرف سے اسپیکر پر بار بار زوردیا گیا کہ وہ نیب کی حراست میں سابق وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق کو ایوان کی کارروائی کا حصہ بنانے کےلئے قومی اسمبلی میں انہیں لانے کی غرض سے ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ جاری کریں۔ اسپیکر اسد قیصر مخمصے میں ہیں انہیں پیغام برابر مل رہا ہے کہ وہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں احتیاط سے کام لیں انہیں ایوان کو پرسکون طورپر چلانا ہے اگر خواجہ سعد رفیق کےلئے پروڈ کشن آرڈر جاری کرنے میں وہ بدستور لیت و لعل سے کام لیتے رہے تو ایوان کوہنگامے سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے قائد حزب اختلاف کی تقرری میں رکاوٹیں خود حکومت نے کھڑی کی ہیں حالانکہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں حکومت دم پر کھڑی ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان حکومت کے ساتھ معاملہ آرائی میں دلچسپی نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ نیب اور حکومت کی پشت پر یکساں جذبہ محرکہ کار فرما ہے۔