دنیا بھر کے عوام جن میں پاکستان کے عوام بھی شامل ہیں غربت معاشی اور معاشرتی بدحالی کے جس روح فرسا دور سے گزر رہے ہیں اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ عوام کی اجتماعی طاقت متحرک ہوکر اس عوام دشمن نظام کا خاتمہ کردیتی لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک تو عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا گیا ہے۔
دوسرے انھیں جمہوریت کے نام پر اس طرح بے وقوف بنا کر رکھا گیا ہے کہ وہ تبدیلی کے کسی منطقی اور جامع راستے کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے اور ان کی ساری امیدیں اس عوام دشمن مافیائی جمہوریت سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں جو اشرافیہ کی رکھیل بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں عوام دوست طاقتوں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی نظریاتی رہنمائی کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ عوامی مفادات کے نام لیوا ایسی بھول بھلیوں میں گھرگئے ہیں کہ نہ وہ ہی بن رہے ہیں نہ شی، بس درمیان میں اٹکے ہوئے ہیں۔ ان کارکنوں کی دوڑ صرف مختلف ’’دن‘‘ منانے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
آج کل روسی انقلاب کی یاد میں دن منائے جا رہے ہیں۔ بھارت، کوریا وغیرہ سے کامریڈ آئے ہوئے ہیں اور اکتوبر انقلاب پر نظریاتی مباحثوں میں مصروف ہیں۔ اکتوبر کے مہینے تک یہ انقلابی سرگرمیاں جاری رہیں گی، اس کے بعد اللہ اللہ خیر صلیٰ ہوجائے گا۔ ہمیں بھی مختلف پروگراموں میں شرکت کے دعوت نامے آتے رہے لیکن اپنی خرابیٔ طبیعت کی وجہ سے ہم نہ جا سکے، اس نہ جاسکنے کا ہمیں کوئی دکھ یا افسوس اس لیے نہیں کہ عشروں سے اس قسم کے اجتماعات ہو رہے ہیں جن میں مرثیہ گوئی اور ماتم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں حیرت ہے کہ انقلاب کے داعی ان ’’ظالمانہ مصروفیات‘‘ کے دائرے سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
1917 کا انقلاب سیمیناروں، کانفرنسوں، مظاہروں سے نہیں آیا تھا بلکہ عوام کی نظریاتی تربیت اور انھیں درست ڈائریکشن میں متحرک کرنے سے آیا تھا ۔ سیمینار کانفرنسیں وغیرہ آج کے کھلے استحصالی دور میں ایک نظریاتی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس قسم کی محدود انقلابی جدوجہد کا المیہ یہ ہے کہ ان تقریبات میں عموماً مقررین بھی وہی گھسے پٹے ہوتے ہیں اور حاضرین کا بھی عالم یہ ہوتا ہے کہ وہی چہرے وہی پرانے تھکے ہوئے لوگ جو اب عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں کہ ان کا چلنا پھرنا بھی دشوار ہوتا ہے لیکن انقلاب کی آرزو انھیں اس قسم کی تقریبات میں کھینچ لاتی ہے۔
ہمارے سینئر دوستوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ہم نے کیڈر نہیں پیدا کیا۔ یعنی نوجوان نسل کو آگے لا کر انھیں نظریاتی ہتھیاروں سے لیس نہیں کیا۔ یہ درست بات ہے کہ انقلابی تنظیموں میں نوجوان آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن محترم دوست غالباً یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نوجوان کسی تنظیم میں اس وقت شرکت کرتے ہیں یا ان کی تقریبات میں اس وقت حصہ لیتے ہیں جب وہ خود متحرک ہوں۔یہاں صورتحال یہ ہے کہ بے چارے عوام نہ کسی انقلابی دوستوں کے صورت آشنا ہیں۔ اس عبرتناک صورتحال میں کیڈر کیسے پیدا ہوسکتا ہے عوام کیسے آگے آسکتے ہیں؟
اس حوالے سے سب سے بڑی مجبوری یہ بتائی جاتی ہے کہ ’’ہمارے پاس وسائل‘‘ نہیں ہیں۔ بجا ارشاد لیکن دنیا کی انقلابی تاریخ میں عموماً وسائل سے محروم جماعتوں نے ہی انقلابی کام کیے ہیں۔ کسی بھی ملک میں انقلاب یا بنیادی تبدیلی وسائل سے محروم دوستوں کی ایماندارانہ کوششوں ہی سے آتی ہے وسائل تو بورژوا پارٹیوں میں ہوتے ہیں اور یہ استحصالی طبقات پارٹیوں کو وسائل اس لیے فراہم کرتے ہیں کہ ملک پر استحصالی طاقتوں کی اجارہ داری قائم رہے۔کروڑوں روپے کے صرف سے انتخابات لڑنا غریبوں مزدوروں کسانوں کے بس سے باہر ہوتا ہے، چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے انتخابی نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ اس میں سرمایہ کاری وہی لوگ کرسکتے ہیں جو کروڑ پتی یا ارب پتی ہوں غریب اور وسائل سے محروم عوام خواہ وہ کتنے ہی ایماندار مخلص اور جفاکش عوام دوست ہوں وہ ان سرمایہ دارانہ انتخابات میں حصہ لے ہی نہیں سکتے۔
انقلابی جدوجہد میں مزدوروں کو ہراول کہا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً چھ کروڑ مزدور مختلف سیکٹروں میں کام کر رہے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ یونین کا نام نہیں لے سکتے اگر کوئی مزدور یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کرکارخانے یا ملز سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں ٹھیکیداری نظام لاگوکردیا گیا ہے جس میں مزدور کا تعلق کارخانے یا ملز سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ دن رات محنت کرکے پیداوار میں اضافہ کرے۔ وہ مل کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ ٹھیکیدار کا ملازم ہوتا ہے۔ اپنی اجرت بھی وہ ٹھیکیدار ہی سے وصول کرتا ہے اور وہ لیبر قوانین کے تحت حاصل ہونے والے حقوق سے بھی محروم ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت صنعتی غلام جیسی ہوتی ہے۔ ہمارے محترم لیبر لیڈر اپنی تقاریر میں مزدوروں پر ہونے والے مظالم کا ذکر تو زوروشور سے کرتے ہیں لیکن مزدوروں کو ان مظالم سے نجات دلانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کرتے۔
مزدوروں کے بعد کسان اور ہاری وہ طبقہ ہے جو عملاً وڈیرہ شاہی کا غلام بنا ہوا ہے۔ کسانوں اور ہاریوں کے رہنما مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ ’’کسانوں کو بھی یونین سازی کا حق دو۔‘‘ اول توکسانوں ہاریوں کو یونین سازی کا حق ملے گا نہیں کیونکہ قانون ساز اداروں پر وڈیرہ شاہی ہی مسلط ہے اگر فرض محال یونین سازی کا حق مل بھی گیا تو قانون اور انصاف اس کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام میں قانون اور انصاف بالادست طبقات کا محافظ ہوتا ہے نہ کہ مزدوروں کسانوں کے حقوق کا۔
اگر ہمارے ملک میں انقلابی تنظیمیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نہ ہوتیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں وقت ضایع کرنے کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتیں تو بلاشبہ عوام اشرافیائی جماعتوں کے سحر سے نکل آتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں میں انقلابی تنظیمیں موجود ہی نہیں اگر ہیں بھی تو انھیں عشروں سے ’’اسٹڈی سرکلوں‘‘ میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ انھیں نہ ان کے طبقاتی حقوق کا احساس دلایا جاتا ہے نہ ان حقوق کے لیے جدوجہد کے راستے پر ڈالا جاتا ہے۔ بلاشبہ پسے ہوئے طبقات کو طبقاتی شعور دینا ضروری ہے لیکن طبقاتی شعور دس بیس افراد پر مشتمل اسٹڈی سرکلز سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے 20 کروڑ عوام تک رسائی ضروری ہوتی ہے۔
ایک عرصے سے پنجاب میں کسان اپنے مطالبات پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے مطالبات میں کھاد اور بیج سستا کرنا جیسے مطالبات ہیں۔ بلاشبہ یہ مطالبات چھوٹے زمینداروں کے ہوسکتے ہیں لیکن کسانوں اور ہاریوں کا اصل اور بنیادی مسئلہ زرعی اصلاحات ہیں۔ کیا اس مطالبے پر کسانوں اور ہاریوں کو متحرک کیا جارہا ہے۔ عوام کا مسئلہ انتخابی اصلاحات ہونا چاہیے۔ ایسے انتخابی اصلاحات جس میں عام اہل اور عوام سے مخلص امیدوار انتخابات میں شرکت کرسکے صرف ان دو مطالبات یعنی زرعی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات پر انقلابی دوست عوام کو متحرک کریں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔