لاہور (ویب ڈیسک) نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات میں سول ایوارڈ ملنے پر ہمارا غصہ جائز ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں کہ ایک طرف بھارت نوے لاکھ کشمیریوں کو انہی کی وادی میں قید کر دے اور دوسری طرف برادر مسلم ملک اس کے وزیر اعظم کو تمغے پہنائے۔ ہماری طرف سے نامور کالم نگار حبیب اکرم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آہ و بکا تو بنتی تھی۔ امت مسلمہ کی دہائی بھی کسی حد ٹھیک ہے۔ پھر بحرین والوں نے تو جلتی پر تیل ڈالا اور مودی کو ایک زیرِ مرمت مندر میں بھی لے گئے۔ خلیج کے اخبارات نے جس انداز میں بھارتی وزیر اعظم کے دورے کی کوریج کی وہ بھی محل نظر ہے۔ دورے کے دوران شائع ہونے والے اخبارات پر نظر ڈال لیں، ان کا ایک ایک لفظ بھارت کے ساتھ دوستی کے تازہ اور گرما گرم شیرے میں لتھڑا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں عربوں کو کوسنے دینے والے بھانت بھانت کے ٹی وی پروگرام بلا سبب نہیں۔ ہر پاکستانی کو، ہر کشمیری کو مودی کو ملنے والا ہار اپنے گلے میں جلتے ہوئے رسّے کی مانند لگا ہے۔ یہ جلن ، یہ چبھن اتنی جلدی تو نہیں جائے گی۔ مگر جلتے کڑھتے ہوئے ہی سہی اس معاملے میں کوئی اپنے چاک گریبان میں بھی تو منہ ڈال کر دیکھ لے۔ ذرا سا توقف کر کے یہ بھی تو سوچ لے کہ آخر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے سب کچھ جانتے بوجھتے ایسا کیوں کیا؟ ایسا کیا ہو گیا تھا کہ چند مہینے پہلے ہمارا وزیر اعظم جس کی گاڑی خود چلا رہا تھا، وہ آج مودی کو بغل میں لیے تصویریں بنوا رہا ہے؟ اگر کسی کو یاد نہ ہو تو یاد دلانے کی جسارت کرتا ہوں کہ اپریل دو ہزار پندرہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہمہ مقتدر ادارے پارلیمنٹ کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ تقریب اس اجلاس کی یہ تھی کہ عرب ملکوں نے ہم سے یمن کے معاملے پر مدد مانگی تھی۔ اصولی طور پر اس طرح کے معاملات پارلیمان میں اس وقت لائے جاتے ہیں جب واقعی جنگ کا خطرہ ہو۔ جنگ کا کوئی خطرہ نہ ہونے کے باوجود یہ معاملہ حکومت نے خود طے کرنے کی بجائے پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا۔ ہم جیسے طوطی نقار خانے میں گلے پھاڑ پھاڑ کر بتاتے رہے کہ یہ غلط ہو رہا ہے، سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ بھی یاد کرایا گیا لیکن سب کچھ بہرے کانوں پر جا گرا۔ خاکسار نے بہت سی عرض معروض کالموں میں بھی کی، ٹی وی پروگراموں میں بھی شور مچایا اور اہالیان اقتدار کو دست بستہ گزارش بھی کی کہ یہ موقع ہے عرب دنیا میں طویل عرصے کے لیے اپنی دھاک بٹھانے کا۔ کرنا کرانا کچھ نہیں بس چند فوجی بھیجنے ہیں جو سعودی عرب میں رہیں۔ ایک آدھ جنگی بحری جہاز خلیج عقبہ میں رکھنا ہے اور یمنیوں کے درمیان صلح صفائی کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے علاوہ کسی قرارداد یا بحث مباحثے کی ضرورت نہیں۔ اُس وقت بڑے بڑے دانشور انہی ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر کبھی ایران کی دہائی دیتے تھے تو کبھی غیر جانبداری کو بہترین پالیسی قرار دینے کے لیے بے بنیاد دلائل فراہم کیا کرتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ پارلیمنٹ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب نمائندوں نے لا علمی اور بے حکمتی کے روڑے چن چن کر طے شدہ خارجہ پالیسی کے راستے میں اٹکا دیے۔ اس اجلاس سے پہلے اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بار بار کہا کہ سعودی عرب ہم سے مدد مانگ رہا ہے لیکن ہم نہیں دیں گے۔ ذرا کوئی شاہ محمود قریشی کو ان کی تقریر بھی یاد دلا دے جس میں وہ اِدھر اُدھر کے حوالے دے کر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ سعودی عرب کو تو کوئی خطرہ نہیں۔ شیریں مزاری کو بھی ان کی تقریر یاد کرا دی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ پھر وہ قرارداد بھی تو پوری قوم کو یاد کرنی چاہیے جو اس اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔ اس قرارداد کا مطلب تھا، ہم عربوں کے لیے کچھ نہیں کریں گے جب تک ان پر باقاعدہ حملہ نہ ہو جائے۔ جیسے کشمیر ہمارے لیے اہم ہے، اس وقت یمن کا معاملہ ان کے لیے اسی قدر اہم تھا۔ اس وقت ہم غیر جانبداری کا شور مچا رہے تھے تو آج ان کی خاموشی ہمیں کیوں کھل رہی ہے!حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد کے بعد پاکستان اپنی قدر و قیمت عربوں کی نظر میں کھو چکا تھا۔ اسی وقت عرب کے ایک وزیر خارجہ نے کہا تھا، ”پاکستان نے ہماری آنکھیں کھول دیں‘‘۔ نواز شریف کی حکومت کے دوران عربوں کے ساتھ ایسا ہو گا، سعودیوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات میں ٹیکسٹائل کی نمائش کے انعقاد کے حوالے سے نواز شریف پاکستان کا ووٹ ترکی کے حق میں استعمال کر کے بھی اپنی ترجیحات واضح کر چکے تھے۔ جب یمن والے معاملے میں بھی پاکستان نے کچھ کرنے سے انکار کر دیا تو سعودی عرب نے نہ کوئی احسان یاد دلایا، نہ کوئی اور تقاضا کیا بس خاموشی اختیار کر لی۔ سعودی خاموشی کے بعد خلیج تعاون کونسل کے تمام ملکوں نے پاکستان کی سیاسی قیادت کا عملی مقاطعہ کر ڈالا۔ خلیج میں موجود پاکستانیوں کو تو کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن مزید پاکستانیوں کے لیے ویزے کا حصول مشکل ہو گیا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بھارتی مزدوروں کو خوب ویزے ملے۔ نتیجہ یہ کہ سعودی عرب میں ان کی تعداد پاکستانیوں سے ڈیڑھ گنا، عرب امارات میں تین گنا اور بحرین میں برابر ہو گئی۔ رہی سہی کسر عمران خان نے نواز شریف کی مخالفت میں تلور کے شکار کو سیاسی معاملہ بنا کر پوری کر دی۔ پاکستان جو عربوں کا دوسرا گھر تھا اور یہاں انہوں نے اپنے مکانات بنا رکھے تھے، انہی پانچ سالوں میں بیچ دیے گئے یا انفرادی طور پر تحفے دے کر ان سے جان چھڑا لی گئی۔ عرب میں غیر جانبداری کی اس تباہ کن پالیسی کے بعد جنرل راحیل شریف نے پے در پے کوششیں کر کے متحدہ عرب امارات سے ٹوٹتے ہوئے تعلق کو سنبھالا دیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس میں کتنے سخت مقام آئے اور کس طرح راحیل شریف نے ان سے تعلق جوڑا۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ آئے تو انہوں نے ان گنت دورے کرکے عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب سے تعلقات کو دوبارہ اس نہج پر استوار کیا کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچے ہوئے ملک کے لیے نو ارب ڈالر ہمیں ملے۔ پھر انہی عربوں کی کوشش سے امریکا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا راستہ کھلا اور آئی ایم ایف سے بھی قرضہ ملنا ممکن ہوا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ حقیقت پسند نہ آئے لیکن یکے بعد دیگرے دو جرنیلوں نے ہی کسی حد تک اس زخم کو سیا تھا جو ہماری پارلیمنٹ کی بے معنی سی قرارداد نے لگایا تھا۔ ٹی وی پر بیٹھ کرامت مسلمہ کی بے عملی کے شکوے بجا لیکن یہ بھی تو کوئی دیکھے کہ جب امت ہمیں پکار رہی تھی تو ہم کس طرف کھڑے تھے! کشمیر پر ہمارے موقف کی زوردار تائید نہ کر کے عربوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، تسلیم، لیکن جو ہم نے کیا اسے کیا کہتے ہیں؟وقت اور تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ایک آدھ استثنا کے سوا پاکستانی سیاست دان خارجہ پالیسی کے معاملے میں نالائق اور وزارت خارجہ کے افسر نالائق تر واقع ہوئے ہیں۔ ان میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت ہے نہ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا ادراک۔ عالمی لیڈروں سے ذاتی تعلقات بنانے کی فضول مشقوں کے سوا انہیں کچھ نہیں آتا۔ دو ہزار پندرہ میں یہ بھول گئے تھے کہ کب کب ہمارے عرب دوستوں نے ہماری کیا کیا مدد کی تھی۔ ہماری دفاعی طاقت کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا تھا، جس قوت پر آج ہمیں ناز ہے اس کے حصول میں کس نے مالی تعاون کیا تھا۔ ہمارے خطے کے حقائق کیا ہیں اور مستقبل میں ہمیں کہاں جانا ہے، یہ ساری تاریخ اور بنیادی سوالات صرف ردّ عمل دینے والے سیاستدانوں اور افسروں کی ذہنی صلاحیتوں سے ہی باہر ہیں۔ جب بھی خارجہ امور کا کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے، تین چار ازکار رفتہ دانشوروں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ دانشور بھی وہ جو حالات کے تجزیے میں بھی مستقبل کی نوکری کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ وسطی ایشیا میں ہمارے مقاصد کیا ہیں، ایران سے ہمیں کیا چاہیے، عربوں کو ساتھ ملا کر کیا کرنا ہے یا امریکہ اور چین کے درمیان توازن کی شکل کیا ہو گی۔ ان باتوں پر کوئی سوچتا ہے نہ آئندہ کسی سے امید ہے۔