پروردئہ رسولؐ، اقلیم ولایت کے شہنشاہ، عبادت و ریاضت میں مسلمانوں کے پیشواء، ہمت وشجاعت کے عظیم پیکر خصوصاً معرکۂ خیبر کے شاہ سوار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم، جن کی شان یہ ہے کہ ولادت ’’کعبہ‘‘ میں ہوئی اور شہادت ’’مسجد‘‘ میں پائی۔
یعنی جن کی زندگی کا محور آغاز سے انجام تک اللہ تعالیٰ کا گھر تھا۔ آپؓ ’’ نجیب الطرفین ہاشمی‘‘ اور نبی اکرمؐ کے سگے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کی کنیت ’’ابوالحسن اور ابو تراب‘‘ ہے۔ یوں تو حضرت علیؓ کے بہت سے القاب و خطابات ہیں مگر آپ کو اپنے ناموں میں ’’ابو تراب‘‘ بہت زیادہ پسند تھا، کیوں کہ یہ لقب خود سرکار دو جہاںؐ نے آپؓ کو عطا کیا تھا۔
امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی جملہ خصوصیات میں ایک عظیم خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپؓ نبی اکرمؐ کے سگے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ’’عقد مواخاۃ‘‘ میں بھی آپؐ کے ’’بھائی‘‘ ہیں۔ چناں چہ جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاءﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے درمیان ’’عقد مواخاۃ‘‘ (بھائی چارہ) قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی و اسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علیؓ نہایت آب دیدہ ہوکر بارگاہِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہﷺ آپ نے ’’عقد مواخاۃ‘‘ میں تمام صحابۂ کرام کو تو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا، میں تو یوں ہی رہ گیا ہوں۔ رسول اکرمؐ نے نہایت پیار اور محبت کے انداز میں فرمایا: ’’اے علی! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔‘‘ (جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی عمر ابھی صرف دس سال تھی، جب حضور نبی اکرمؐ کو بارگاہِ خداوندی سے ’’نبوت و رسالت‘‘ کا عظیم الشان منصب عطا کیا گیا۔ چوںکہ حضرت علیؓ، شیر خوارگی میں ہی حضور اکرمؐ کے ساتھ رہتے آ رہے تھے، اس لیے آپ کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے۔ چناںچہ ایک روز حضور سید عالمؐ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو اللہ کی عبادت و بندگی میں مصروف دیکھا تو طفلانہ استعجاب کے ساتھ پوچھنے لگے کہ یہ آپ دونوں کیا کر رہے ہیں۔ حضور نبی کریمؐ نے اپنے نبوت و رسالت کے منصب گرامی کی خبر دی اور ساتھ ہی کفر و شرک کی مذمت کر کے آپ کو توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ محققین علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے امّ المؤمنین حضرت خدیجہؓ، مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، بچوں میں حضرت علی المرتضیٰؓ اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہؓ نے اسلام و ایمان کی عظیم دولت حاصل کی۔
مقام ِعلم و فضل
حضور سرکاردوعالمؐ کی جوہر شناس نگاہوں نے حضرت علیؓ کی اس خداداد قابلیت و استعداد کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور آپؐ کی زبانِ فیضِ ترجمان سے حضرت علیؓ کو ’’بابِ مدینۃ العلم‘‘ (یعنی جملہ علم و حکمت کے شہر کا دروازہ) کی سند مل چکی تھی چناںچہ حضرت علیؓ کے مقام علم و فضل کے متعلق حضور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ فرماتے ہیں کہ: ’’ میں جملہ علم و حکمت کا شہر ہوں اور حضرت علیؓ اس علم و حکمت کے شہر کا مرکزی دروازہ ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی، ابن عساکر، مشکوٰۃ المصابیح)
صحابۂ کرامؓ میں علم و حکمت، فہم و فراست اور فقاہت و ثقاہت کے اعتبار سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا مقام و مرتبہ بہت اونچا اور بلند تر ہے۔ حضرت علیؓ نے حضور نبی کریمؐ سے تقریباً پانچ سو چھیاسی (586) احادیث مقدسہ روایت کی ہیں۔ آپ کے علمی نکات، فتاویٰ اور بہترین فیصلوں کا انمول مجموعہ! اسلامی علوم کے خزانوں کا قیمتی سرمایہ ہے۔
جاںنثاری وامانت داری
حضور سید عالمؐ نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکۂ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپؐ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت مدینے کا حکم ہو چکا ہے، اور میں آج ہی مدینہ طیبہ روانہ ہو جاؤں گا، لہٰذا تم میرے بستر پر میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر سو جانا اور صبح قریش مکہ کی ساری امانتیں اور وصیتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں، وہ ان کے مالکوں کے سپرد کر کے تم بھی مدینہ منورہ چلے آنا۔ چناں چہ حضرت علیؓ بغیر کسی خوف و خطر کے حضور اقدسؐ کے بستر مبارک پر سو گئے۔ صبح ہوئی تو کفارِ مکہ جو رات بھر ناپاک و نامراد ارادے کے ساتھ کاشانۂ نبویؐ کا بہت سخت محاصرہ کیے ہوئے تھے، برہنہ تلواریں لے کر کاشانۂ مصطفویؐ میں داخل ہوگئے لیکن یہاں آکر دیکھا کہ بستر نبویؐ پر حضوراکرمؐ کے بجائے آپ کا ایک جاںنثار موت و حیات سے بے پروا ہوکر سو رہا ہے۔ کفار مکہ یوں ہی ناکام و نامراد ہوکر واپس چلے گئے۔
حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام و سکون کے ساتھ سویا اور صبح اٹھ کر لوگوں کی امانتیں اور وصیتیں ان کے مالکوں کے حوالے کر دیں۔ امانتوں کی ادائیگی کی وجہ سے میں تین دن مکۂ معظمہ میں رہا اور پھر میں نے بھی مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کر لی۔ آپ فرماتے ہیں کہ موت برحق ہے لیکن آج کی رات مجھے موت نہیں آسکتی کیوںکہ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ علی تم یہ امانتیں ان کو مالکوں کو دے کر پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور جب تک یہ امانتیں سپرد نہیں ہو جاتیں اور جب تک میں مدینہ ہجرت نہیں کر لیتا اس وقت موت نہیں آسکتی کیوں کہ یہ سرکار دو عالمؐ کا فرمان تھا۔
حضور نبی اکرمؐ کی حسنِ کفالت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضور سید عالمؐ کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے۔ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے، اس لیے حضور رحمت دو عالمﷺ نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔ چناں چہ حضرت عباسؓ نے حسب ارشادِ نبویؐ حضرت جعفر طیارؓ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود حضور سید الکونینؐ کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علیؓ کو پسند فرمایا۔ چناں چہ آغازِ طفولیت ہی سے حضرت علی مرتضیٰؓ آفتاب نبوت و رسالت حضور خاتم الانبیاءؐ کی حسن تربیت اور آغوشِ پرورش میں رہے۔ حضرت علیؓ نے ایام ِطفولیت ہی سے حضور سرور ِدو عالمؐ کے دامن رحمت و عاطفت میں تربیت پائی تھی، اس لیے آپؓ قدرتاً محاسنِ اخلاق اور حسن تربیت کے بہترین نمونہ تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بچپن ہی سے درس گاہِ نبوت میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا زریں اور پر تقدس موقع ملا، جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم و دائم رہا۔ مسند امام احمد میں آپؓ اس پر فخر و ناز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ میں روزانہ صبح کو معمولاً آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور تقرب کا یہ درجہ میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھا۔ چناں چہ اسی وجہ سے آپ کو حضوراکرمؐ کے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی۔ کاتبانِ وحی میں آپ کا اسم گرامی بھی سرفہرست نظر آتا ہے۔ آں حضرتؐ کی طرف سے جو فرامین و مکاتیب لکھے جاتے تھے، ان میں بعض آپ کے دست مبارک کے لکھے ہوئے تھے، چناں چہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ کا صلح نامہ آپ نے ہی لکھا تھا۔
ہمت و شجاعت کے پیکر
شاہِ خیبر شکن امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی بے مثال ہمت و شجاعت اور شہرئہ آفاق جرأت و بہادری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب و عجم میں آپ کی قوتِ بازو کے سکے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے رعب و دبدبے سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے۔ جنگ ِتبوک کے موقع پر سرکار دو عالمؐ نے آپ کو مدینہ منورہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا، اس لیے اس غزوہ میں آپ شریک نہ ہو سکے، اس کے علاوہ باقی تمام غزوات و سرایا میں آپ شریک ہوئے اور بڑی جاں بازی کے ساتھ کفار و مشرکین کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں اور شہسواروں کو اپنی مایۂ ناز اور شہرئہ آفاق ’’ ذوالفقارِ حیدری‘‘ سے موت کے گھاٹ اتارا۔
وصال با کمال
امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیؓ نے ایک طویل مدت تک اہل ایمان کے قلوب و اذہان کو قرآن و حدیث اور علم و عرفاں سے فیض یاب فرمایا۔ اسلام کی راہ میں آخری عمر تک کفار سے برسر پیکار رہے۔ دین ِاسلام کی بے مثال تبلیغ اور خدمت کی۔ ہر قدم پر اپنے ماسبق خلفاء راشدین اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر ممکن راہ نمائی کی۔ ہر لمحہ اسلام کی راہ میں اپنا مال و متاع اور اپنا تن من دھن قربان کیا اور بالآخر اسلام کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دی۔ حضرت علی المرتضیٰؓ 21 رمضان المبارک بروز جمعتہ المبارک 40 ہجری کو فجر کی نماز میں عین حالت سجدہ میں شہادت کے عظیم منصب و مرتبے پر فائز ہوئے۔