آج ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ بھارت ہر قیمت پر کشمیر پر کیوں قابض رہنا چاہتا ہے اور اس حقیقت سے قائد اعظم تو اچھی طرح باخبر تھے۔ اسی لئے انہوںنے کشمیر کو پاکستان کی ا قتصادی شہہ رگ قرار دیا تھا۔
بھارت کے لئے کشمیر کی زمین اہم نہیں۔بھارت کا زمینی رقبہ پہلے ہی بے حساب اور لا محدود ہے۔ بھارت کو کشمیر کی مسلمان آبادی سے بھی کوئی محبت نہیں، بھارت میں پہلے ہی کروڑوں کے حساب سے مسلمان موجود ہیں ۔ اور ان کا وجود بھی بھارت کو گوارا نہیںتو پھر بھارت کو کشمیر میں کیا نظر آیا۔ جواب ہے کشمیر سے نکلنے والے پانچ دریا۔اس کی حریصانہ نظریں ان دریائوں پر جمی ہوئی تھیں چنانچہ نہرو نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ ساز باز کی اور ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے پٹھان کوٹ کو بھارت کے نقشے میں شامل کروایا۔ پٹھان کوٹ مل گیا تو آگے کشمیر کا راستہ کھلا تھا۔ بھارت نے لشکر کشی کی اور کشمیر کو ہتھیانے کی کوشش کی۔ بھار تی راہنما جانتے تھے کہ اول تو فیروز پورا ور مادھو پور کے دو ہیڈ ورکس پاکستان کے قبضے میں آ گئے تو بھارت کے حصے میں جانے ولا پنجاب اورا س سے متصل راجستھان پہلے روز ہی سے بنجر ہو جائیں گے۔ یہی وہ علاقہ ہے جو پورے بھارت کی غذائی ضروریات کی پوری کرتا تھا۔بھارت کا ایک مذموم منصوبہ یہ بھی تھا کہ کشمیر پر قابض ہو کر وہ پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کا رخ موڑ لیتاا ور یوں پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا۔ دنیا میں پانی کی یہ پہلی لڑائی نہ تھی ۔ جب سے تاریخ کا آغاز ہواہے پانی پر بڑی جنگیں ہوتی آ رہی ہیں،یورپ میں دریائے ڈینیوب اور بر اعظم امریکہ میں مسس پی اور ایمیزون کے جھگڑے تاریخ کا حصہ ہیں۔ خود بھارت کے اندر بھی ریاستوں کے درمیان پانی کے حصے پر تنازعات موجود ہیں اور ان کے درمیان تنائو چل رہا ہے یا بھارتی سپریم کورٹ میںمقدمے بازی شروع ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی بھارت کا پانی کا تنازعہ موجود ہے اور نیپال کے ساتھ بھی۔ قائد اعظم نے کشمیر کو شہہ رگ قرار دیاا ور بھارت کو کشمیر پر قابض ہونے سے روکنے کی ہدایت جاری کی تو قبائلی لشکر حرکت میں آیا اور فوج کی نچلی سطح پر بھی لشکر کے ساتھ چل پڑی۔ اس کی قیادت میجر جنرل اکبر خان رنگروٹ کر رہے تھے۔ پاکستانی پیش قدمی حیران کن تھی۔ قبائیلیوںنے سری نگر ایئر پورٹ پر بھی قبضہ کیا تو نہرو سلامتی کونسل جا پہنچاا ور سیز فائر کروا لی۔ اس سیز فائر کی آڑ میں وہ وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھاتا چلا گیا۔ آج کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں نو لاکھ فوج موجود ہے،ا س قدر کم رقبے پر دنیا میں اتنی بڑی فوج کبھی اکٹھی نہیں کی گئی۔ مگر بھارت بائولا ہو کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بھارت نے کشمیر پر قابض ہو کر پاکستان کے خلاف ایک اور جارحیت کاا ٓغاز کر دیا تھا، اسے دنیا آبی جارحیت کا نام دیتی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں دو دریا راوی اور ستلج تو ویسے ہی حاصل کر لئے ا ور ساتھ ہی اس نے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان دونوں دریائوں سے پانی کی ایک ایک بوند پاکستان کے لئے بند کر دی حالانکہ اسے انسانوں ، حیوانوں اور آبی حیات کی ضرورت کاپانی لازمی فراہم کرنا چاہئے تھا مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ دونوں دریا خشک پڑے ہیں یا گندے ا ور مہلک پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ستلج میں تو بھارت خاص طور پر فیروز پور کی ساری غلاظت پھینک رہا ہے جس کی وجہ سے اس دریا کے کنارے پاکستانی آبادیوں میں بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔
بھارت کی آبی جارحیت کی اگلی منزل یہ تھی کہ پاکستان کو ملنے والے دو دریا ئوں چناب ا ور جہلم کا رخ اپنی طرف موڑ لے اور پاکستان کو بے آب و گیاہ کر کے رکھ دے، اس کا یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے،ابھی ہریانہ کی انتخابی مہم میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنے مذموم عزائم کو ڈھکا چھپا نہیں رہنے دیا۔اس نے اعلان کیا کہ باقی دونوں دریا بھی پنجاب ، ہریانہ اور راجستھان کو سیراب کریں گے اور پاکستان بوندبوند کو ترسے گا۔ یہ ہے وہ اصل تنازعہ جس میں بھارت نے اتنی بڑی فوج جھونک رکھی ہے ا ور جس کی وجہ سے علاقے میں ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا کو خبر دار کیا کہ یہ جنگ شروع ہوئی تو علاقے کی حدود سے باہر تک پھیل جائے گی۔
دنیا نے بظاہر اس خطرے کی طرف کان نہیں دھرے مگر اس نے بھارتی آئین میں ترامیم کر کے اور وادی کشمیر کو ایک وسیع قید خانے میں تبدیل کر کے اپنے آپ کو ایک گڑھے میں گرا لیا ہے۔ دنیا کو پاکستان سے دلچسپی ہو یا نہ ہو۔لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو دنیا برداشت نہیں کر سکتی اور یہی پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے کہ اس نے دنیا کی توجہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کی طرف مبذول کروا دی ہے۔ مگر بھارت ایک عیار دشمن ہے۔ اس نے آزاد کشمیر کے خلاف گیدڑ بھبھکیاں دینا شروع کر دیں ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ دنیا کشمیر کے تنازعے کے بنیادی ا ور حقیقی اسباب کی طرف توجہ نہ دے سکے اور اسے زمین کے لئے تنازعہ ہی سمجھتی رہے۔ جبکہ بھارت در پردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر آبی جارحیت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اور پاکستان کو قحط کا شکار بنانا چاہتا ہے۔ اس نے وادی میں چھوٹے بڑے ڈیڑھ سو ڈیم بنا لئے ہیں اور وہ بڑی تیزی سے پہاڑی سرنگوں کے ذریعے چناب اور ستلج کا پورا پانی مشرقی پنجاب میں واقع ہیڈ ورکس کی طرف موڑ رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ دیو ہیکل آبی ڈیم بھی تعمیر کر رہا ہے جہاں چناب اور جہلم کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا تو یہ ہے بھارت کا اصل اور مذموم منصوبہ۔ وہ پہلے دن سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے، اس نے قیام پاکستان کے صرف تین ماہ بعد وہ نہر بند کر دی جس سے ضلع لاہور کے ایک بڑے زمیندار کی فصلیں اور باغات خشک ہو گئے تھے، یہ صاحب شوکت حیات کو لے کر نہرو کے پاس گئے۔ نہرو بڑا کایاں تھا۔ اس نے کہا کہ پانی تو ملے گا مگر اس کی قیمت ادا کرو گے۔ بڑے زمین دار نے یہ شرط قبول کر لی۔ اور بھارت شیر ہوتا چلا گیا۔ اب تو اس کی گھنائونی چال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک گولی چلائے بغیر اسے چت کر دیا جائے، کشمیر پر اس کا قبضہ اور نو لاکھ فوج کی موجودگی کی وجہ سے بھارت اپنی یہ گھنائونی چال کامیاب کرنے کے در پے ہے، اور پاکستان کے حصے کے تمام دریائوں کے پانی سے ہمیں محروم کرنا چاہتا ہے یہ ہے۔ وہ ا صل جنگ جس کی طرف ہمیں دھیان دینا چاہئے۔ ۔ آبی جارحیت میںنہ گولی چلے گی۔ نہ ایٹم بم پھٹے گا۔ بھارت ایک مکار دشمن ہے۔ اس کا مقابلہ بڑی ہوشیاری سے کرنا ہو گا اورہر محاذ پر کرناہو گا۔ آبی جارحیت کے محاذ پر بھی بھارت کو اسی طرح پچھاڑنا ہو گا جیسے ستائیس فروری کو بھارت کو ناکوں چنے چبوائے گئے تھے۔
بشکریہ نوائے وقت۔ اسد اللہ غالب