تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی
اسلامی ریاست میں قومی یکجہتی اور اتحاد کی جو مثالیں ملتی ہیں دنیا کی کسی اور ریاست میں اسکی نظیر ملنا مشکل ہے۔ میثاق مدینہ کے تحت انصار مدینہ کا مہاجرین سے کیا گیا سلوک اس کی عمدہ مثال ہے۔ اسلام میں آزادی، مساوات اور بھائی چارہ ریاست کے بنیادی اصول سمجھے جاتے ہیں اسلام محض رسوم ورواجات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام و اسلامی ریاست رنگ و نسل کے قائل نہیں صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جوایک ریاست کے اندر یکجہتی و سالمیت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی بنا پر آزادی، مساوات اور اخوت جیسی اعلیٰ اقدار کا حامل نظام حقیقی شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے مسلمان ایک اسلامی ریاست میں مل جل کر رہتے ہیںاور ایک دوسرے کے ساتھ اُنس و محبت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔اسی لیے نبی پاکۖ نے ہمیشہ محبت ،رواداری اور باہمی احترام کا درس دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میںاسلامی روایات اور قومی یکجہتی کا فقدان ہے جسکی وجوہات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں ہمارا تعلیمی نظام دور غلامی کا ورثہ ہے اور قوم کے نوجوانوں کے اندر قومی یکجہتی اور سا لمیت کے جذبات ہر گز پیدا نہیں کرتا ہمارا نظام تعلیم قومی اُمنگوں کا آئینہ دار نہیںہے ملک بھر میں نصاب اورذریعہ تعلیم میں یکسانیت و ہم آہنگی نہیں ہے اس وقت ملک میں تین نوعیت کے ادارے کام کر رہے ہیں اُردو میڈیم، انگلش میڈیم اور دینی مدارس۔سب کا نصاب الگ ہے یہ نصاب اور ذریعہ تعلیم مساوات کا ہر گز علمبردا رنہ ہے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیںکچھ لوگ ہزاروں ایکڑ کے مالک ہیں جن میں سے بہت ساری زمینیں گیر آباد بھی پڑی ہیںجبکہ کچھ لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہ ہے۔
ملکی معیشت میں جاگیرداروں کا بہت عمل دخل ہے وہ دولت اور طاقت کی بنا پر پارلیمنٹ او ر صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے قانون سازی کرواتے ہیںمُلک میں کی گئی زرعی اصلا حا ت کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے عام لوگ وسائل سے محروم ہیں اس سے معاشی نا ہمواری میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں کثیر جماعتی نظام رائج ہے ان میں بہت کم جماعتیں ایسی ہیںجن کی تمام صوبوں میں موثر تنظیم ہے اکثر جماعتیں علاقائی ہیںاُنہیںقومی جماعتیں نہیں کہا جا سکتا۔سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملکی وقومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئی ہوں۔
امریکہ اور برطانیہ میں دو جماعتی نظام ہے اور دونوں ہی ملک گیر جماعتیں ہیںلہٰذا وہاں یکجہتی کا فقدان نہ ہے کثیر جماعتی نظام میں ہر پارٹی کا الگ منشور،لائحہ عمل اور پروگرام ہوتا ہے وہ کبھی بھی قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔کسی بھی ملک کے رہنے والے افراد قوم کے علاوہ مختلف مذاہب ،سیاسی جماعتوں،طبقوں اور علاقوں سے وابستہ ہوتے ہیں مگر یہ بات انکے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی و ملکی مفادات کو باقی تمام مفادات پر ترجیح دیں اور یہی حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے ۔مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو اپنی جماعت،فرقے اور علاقے پر ملکی مفادات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پھلنے پھولنے کامو قع نہیںملا۔بار بار مارشل لاء کے نفاذ سے جمہوری اداروں اور ملکی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا ہیجمہوری اداروں کا مستقل طور پر کام کرتے رہناقوم میں خود اعتمادی پیدا کرنیکا باعث بنتا ہے اگر ملک میں جمہوری فضاء قائم نہ ہو تو لوگ گھٹن محسوس کرتے ہیں پاکستان کی تا ریخ گواہ ہے کہ اس گھٹن کے نتائج کبھی بھی ملک و قوم کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان نظریہ اسلام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا جب تک مسلمان اس نظریہ سے وابستہ رہے اُس وقت تک ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے زندہ رہے مگر جب انہوں نے نظریاتی بنیادوں سے اختلاف کیا اور زبان اور علاقوں کے حوالے سے تعصبات کا شکار ہو گئے تو انکی طاقت کمزور ہو گئی حتیٰ کہ١٩٧١ء مُلک دو لخت ہو گیا بانیان پاکستان اسے فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے مگر عیار لوگوں نے معاشی انصاف کا گلا گھونٹ دیا عام لوگوں کومحرومیوں کا شکار کر دیا دولت کی غیر منصفا نہ تقسیم سے طبقات میںوسیع خلیج پیدا ہو گیا۔
وسائل دولت پر چند گھرانوں کا قبضہ ہو گیا اور عام لوگ دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگے عیار لوگوں نے قائد اعظم کے فرمودات کو نظر انداز کر کر دیا اس معاشی ناہمواری نے پاکستان کو زبردست نقصان پہنچایا ۔پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے فرقہ واریت زوروں پر ہے ایک اللہ اور رسولۖ کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں اس فرقہ واریت نے غلط فہمیوں اور کدورتوں کو جنم دیا ہے اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہیاسکا فائدہ ملک دشمن قوتیں اُٹھا رہی ہیں اور اپنے مذموم مقاصد پورے کر رہی ہیں۔
پاکستان میں مفاد پرست سیاستدانوں نے اپنی مطلب برداری کے لیے صوبائیت پرستی کو خوب ہوا دی ہے اس سے لوگوں میںصوبائی منافرت پیدا ہوتی ہے آج بھی قومی سطح پر علاقائی گروہ بندیاں موجود ہیں۔سندھی، بلوچی، پشتون اور پنجابی کے راگ الاپے جا رہے ہیںلسانی تعصب بھی قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
پاکستانی قومیت کے احساس کے ساتھ ساتھ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیں ۔فرمان خداوندی ہے ” تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں” رسول کریمۖ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا ” کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر،گورے کو کالے پراور نہ کالے کو گورے پر،ماسوائے تقویٰ کے” اسلامی اخوت کی بناء پر پاکستانی قوم کے مابین تعصبات اور اختلافات ختم ہو سکتے ہیں اور ہمارے درمیان قومی یکجہتی کے جذبات پروان چڑھ سکتے ہیں۔
تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی