’’قوم لوط نے (ان کی) تنبیہ کو جھٹلایا ۔ ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا ان پر بھیج دی (جس نے انہیں تباہ کردیا)، صرف لوطؑ کے گھر والے اس سے محفوظ رہے، جنہیں ہم نے اپنے فضل سے صبح ہونے سے قبل (وہاں سے ) بچا کر نکال لیا۔ ہم ہر اس شخص کو جز ا دیتے ہیں، جو شکر گزار ہوتاہے۔ اور لوطؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری (جانب سے بھیجی گئی) سزا سے خبردار کیا لیکن وہ ساری تنبیہات پر شک کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے رہے۔‘‘
(سورۃ القمر۔آیات 33 تا 36 )
حضرت لوط ؑ کا زمانہ عین وہی ہے جوحضرت ابراہیم ؑ کا تھا۔ حضرت لوطؑ کو حضرت ابراہیم کے ایک نواحی علاقے میں پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا۔ یہ لوگ ، جیسا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے، بدفعلی کی عادتِ بد میں مبتلا تھے جو اس وقت تک کی دنیا میں ایک نامعلوم عمل شمار ہوتی تھی۔ جب حضرت لوط ؑ نے ان لوگوں کو بدفعلی سے روکا اور انہیں اللہ تعالی کی جانب سے تنبیہ پہنچائی ، تو انہوں نے حضرت لوطؑ کو پیغمبر ماننے اور کوئی بھی نصیحت قبول کرنے سے انکار کردیا، اور غیر فطری فعل سے شغل جاری رکھا۔ آخر کار اللہ تعالی نے ان لوگوں پر عذاب نازل کیا اور وہ لوگ ایک عبرت انگیز حادثے کی بناء پر روئے زمین سے نیست ونابود ہوگئے۔ وہ شہر جو قوم لوط ؑ کا مسکن کا تھا، اسے عہد نامۂ عتیق (old testaments)میں’’سدوم‘‘ (sodom) یعنی گناہ گاروں (بدفعلیاں کرنے والوں ) کا شہر لکھا گیا ہے۔ یہ بستی جو بحیرۂ احمر کے شمال میں واقع تھی، یقیناً اسی انداز میں تباہ ہوئی ، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے (اور یہی ہمارا ایمان بھی ہے اور ہونا چاہئے)۔ آثاری (آثار قدیمہ کے) مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر اس جگہ واقع تھا جہاں آج بحیرۂ مردار (Dead Sea ) نامی جھیل (اردن اسرائیل سرحد پر) واقع ہے۔
مذکورہ بالا عذاب کی باقیات کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قوم لوطؑ کو اسی انداز میں سزا کیوں دی گئی۔ یہ بتاتے ہوئے کہ حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو کس طرح متنبہ کیا اور ان لوگوں نے کیا جواب دیا، قرآن کہتاہے:
’’لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا ۔ یاد کرو جب ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا ’کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو‘۔ ان لوگوں نے کہا: ’اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں، ان میں تو بھی شامل ہوکر رہے گا‘ (اس پر) انہوں (حضرت لوطؑ ) نے کہا: ’تمہارے کرتوتوں پر جو لوگ کڑھ رہے ہیں، میں ان میں شامل ہوں۔
(سورۃ الشعراء ۔آیات 160 تا 168 )
حضرت لوطؑ کی دعوتِ حق کے جواب میں ان لوگوں نے انہیں دھمکانا شروع کردیا۔ یہ لوگ حضرت لوطؑ اور ان کے ماننے والوں کی راست بازی کے باعث ان سے نفرت کرنے لگے اور انہیں جلا وطن کرنے کے خواہش مند ہوگئے۔ دیگر آیاتِ قرآنی میں یہ واقعہ کچھ اس طرح بیان کیاگیا ہے:
’’اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا ۔ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ’ کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہوکہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔‘ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے! بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘۔‘‘
(سورۃ الاعراف۔ آیات 80 تا 82 )
حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو روز روشن کی مانند عیاں سچائی کی دعوت دی اور انہیں کھلے بندوں میں تنبیہ کی، لیکن یہ لوگ کسی نصیحت ، کسی تنبیہ کو خاطر میں نہیں لائے۔ انہوں نے حضرت لوطؑ کی بات ماننے سے انکار کیا اور اس سزا کا یقین بھی نہیں کیا جس کی انہیں پیشگی اطلاع دی جارہی تھی۔ قرآن بتا تا ہے:
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے لوط ؑ کو بھیجا اور اس نے اپنی قوم سے کہا: ’تم وہ فحش کام کرتے ہو، جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ کیا تمہارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں (تک) میں برے کام کرتے ہو۔‘ پھر اس کی قوم کے پاس، اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا: ’لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچاہے‘۔‘‘
(سورۃ العنکبوت۔ آیات 28 تا 29 )
اپنی قوم کا یہ جواب سننے کے بعد حضرت لوطؑ نے اللہ تعالی سے مدد مانگی: ’’اے میرے رب! ان مفسدوں کے مقابلے میں میری مدد فرما‘‘۔ (العنکبوت ۔ آیت 30 )
’’اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے اہل وعیال کو ان کی بدکرداروں سے نجات دے‘‘۔ (الشعراء ۔آیت 169 )
حضرت لوطؑ کی دعا پر اللہ تعالی نے آدمیوں کی شکل میں دو فرشتے بھیجے۔ حضرت لوطؑ کے پاس آنے سے پہلے یہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم کو خوشخبری دی کہ ان کی بیوی کے یہاں بچے کی ولادت ہوگی، اور یہ بھی بتایا کہ انہیں بھیجنے کا مقصد قوم لوط ؑ کے اوباش ، عیاش اور گمراہ لوگوں کو تباہ کرنا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتاہے:
’’ابراہیم نے کہا: ’اے فرستادگانِ الہٰی ! اور کیا مہم آپ کو درپیش ہے؟‘ انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسادیں جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزرجانے والوں کے لئے نشان زدہ ہیں‘۔‘‘
(الذاریات۔ آیات 31 تا 34 )
’’صرف لوط ؑ کے گھروالے مستشنٰی ہیں، انہیں ہم بچالیں گے، سوائے اس کی بیوی کے جس کے لئے(اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ) ہم نے مقدر کردیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی‘‘۔ (الحجر۔ آیات 59 تا 60 )
حضرت ابراہیم ؑ سے ملنے کے بعدیہ فرشتے حضرت لوطؑ کے پاس آئے۔ وہ ان فرشتوں سے (جو انسانی شکل میں تھے) ناواقف تھے اس لئے پہلے تو پریشان ہوگئے لیکن پھر ان سے بات کرنے کے بعد پرسکون ہوگئے۔
’’اور جب ہمارے پیغام رساں (فرشتے ) لوطؑ کے پاس پہنچے توان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور (اس خیال سے کہ انہیں اپنی قوم کے لوگوں سے بچانا بس سے باہر ہوگا) وہ پریشان ہوکر کہنے لگا کہ آج تو بڑی مصیبت کا دن ہے‘‘۔
(سورۃ ھود۔ آیت 77 )
’’پھر جب یہ پیغام رساں لوطؑ کے ہاں پہنچے تو اس نے کہا : ’آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں‘ ۔ انہوں نے جواب دیا: ’نہیں! بلکہ ہم لوگ وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے آنے میں یہ لوگ شک کررہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ لہٰذا اب تم کچھ رات ہونے کے بعد اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ بس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے‘۔ اور ہم نے اپنا فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑکاٹ دی جائے گی‘‘۔
(سورۃ الحجر۔ آیات 62 تا 66 )
دریں اثناء قوم لوطؑ کے گمراہ افراد کو ان کے یہاں مہمانوں کے اطلاع مل گئی ۔ وہ اپنے ناپاک ارادے لے کر دوڑے دوڑے حضرت لوطؑ کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے ہر طرح کی شرم وحیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حضرت لوطؑ سے مطالبہ کیا کہ اپنے مہمان ہمارے حوالے کردو۔ اس غرض سے کہ گھر کا کوئی فرد نکل کر بھاگنے نہ پائے، ان لوگوں نے حضرت لوطؑ کے گھر کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ حضرت لوطؑ اپنے مہمانوں کا خیال کرکے بے حدپریشان ہوئے اور اپنی قوم سے کچھ یوں خطاب فرمایا:
’’(اے لوگو!) یہ میرے مہمان ہیں۔ میری فضیحت نہ کرو۔ اللہسے ڈرو اور مجھے رسوانہ کرو۔‘‘
(سورۃالحجر۔آیات 68 تا 69 )
ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ جواباً کہنے لگے!
’’کیا ہم تمہیں بارہا منع نہیں کرچکے ہیں کہ دنیا بھرکے ٹھیکے دار نہ بنو۔‘‘ (الحجر۔ آیت 70 )
اس خیال سے کہ انہیں اور ان کے مہمانوں کو شیطانی سلوک سے سابقہ ہے، حضرت لوطؑ نے کہا:
’’کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا۔‘‘
(سورۃ ھود۔ آیت 80 )
اس پران کے ’’مہمانوں ‘‘ نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے پیغام رساں ہیں اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا:
’’اے لوطؑ ! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل وعیال کو لے کر نکل جا۔ اور تم میں کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے ‘ لیکن تیری بیوی (پیچھے رہ جائے گی کیونکہ اس) پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو ان لوگوں پر گزرے گا۔ ان کی تباہی کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے۔ صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے‘‘
(سورۃ ھود۔ آیت 81 )
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جب قوم لوطؑ کی سرکشی، گمراہی اور گناہ پر اصرارحد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پوری قوم کو نیست ونابود کردیا اور صرف حضرت لوطؑ اور ان کے ماننے والوں کو فرشتے بھیج کر بچالیا۔ صبح کے وقت، بستی کے گمراہ لوگوں کو ایک ہولناک وہلاکت خیز حادثے (عذابِ الہٰی ) نے آلیا جس کی خبر حضرت لوطؑ انہیں پہلے ہی دے چکے تھے۔
’’اور پھر انہوں (قوم لوطؑ ) نے اسے (حضرت لوطؑ کو) اپنے مہمانوں کی حفاظت سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ آخر کار ہم نے ان( لوگوں ) کو اندھا کردیا(اور انہوں نے سنا ) کہ ’اب میرے عذاب کا، اور میری تنبیہات کا مزا چکھو۔‘ صبح سویرے ہی ایک اٹل عذاب نے ان کو آلیا‘‘۔ (سورۃ القمر۔ آیات 37 تا 38 )
قوم لوطؑ کی تباہی کا احوال ‘ دیگر آیات قرآنی میں کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے۔
’’آخر کار پوپھٹتے ہی ان کو ایک زبردست دھماکے نے آن گھیرا اور ہم نے اس بستی کو الٹ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسادی۔ اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو صاحبِ فراست ہیں۔ اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) گزرگاہ عام پر واقع ہے۔ اس میں سامانِ عبرت ہے ان لوگوں کے لئے، جو ایمان والے ہیں۔‘‘
(سورۃ الحجر۔ آیات 73 تا 76 )
’’پھر جب ہمارے فیصلے (کے عمل میں آنے کا) کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو الٹ دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ(تہہ در تہہ بوچھاڑ کی شکل میں) برسائے، جن میں سے ہر پتھرتیرے رب کے یہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں۔‘‘
(سورۃ ھود ۔ آیات 82 تا83 )
’’پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کردیا اور ان پر برسائی (پکے ہوئے پتھروں کی) ایک برسات۔ بڑی ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور بے حد رحیم بھی۔‘‘
(سورۃ الشعراء۔ آیات 172 تا 175 )
یہ گمراہ لوگ تباہ ہوگئے۔ا ور صرف ایک گھرانے کے بقدر، حضرت لوطؑ اور ان کے ماننے والے، لوگ بچالئے گئے۔ حضرت لوطؑ کی بیوی ان کے ماننے والوں میں نہیں تھی لہٰذا اسے بھی انہی لوگوں کے ساتھ نیست ونابوکردیا گیا۔
’’اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: ’کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔‘ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا ’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں۔‘ آخر کار ہم نے لوطؑ اور اس کے گھر والوں کو، بجزاس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی، بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی (پکے پتھروں کی) ایک بارش، پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
(سورۃ الاعراف۔ آیات 80 تا84 )
اور یوں حضرت لوطؑ اور ان کا گھرانہ ، ان کی بیوی کو چھوڑ کر ، بچالیا گیا۔ عہد نامہ عتیق میں لکھا ہے کہ یہ باقیما ندہ لوگ بعد ازاں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس ہجرت کرگئے۔جہاں تک سرکش، نافرمان اور گمراہ (قوم لوط ؑ کے ) لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں اور ان کی رہائش گاہوں تک کو صفح�ۂہستی سے حرفِ غلط کی مانند مٹا دیا گیا۔
جھیل لوط (بحیرۂ مردار ) میں ’’واضح نشانیاں‘‘
سورۂ ھود کی 82 ویں آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ قومِ لوطؑ پر نازل کردہ عذاب کی نوعیت کیا تھی: ’’جب ہمارے فیصلے (کے عمل میں آنے کا) وقت آگیا تو ہم نے اس بستی کو الٹ دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی تابڑ توڑ (تہہ در تہہ بوچھاڑ کی شکل میں ) بارش کردی۔‘‘
قرآن کا یہ کہنا کہ ’’اس بستی کو الٹ دیا‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پورا علاقہ ایک زبردست وشدید زلزلے کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کردیا گیا تھا۔ اسی کی مطابقت میں جھیل لوط (بحیرہ مردار)، جہاں یہ تباہی وقوع پذیر ہوئی تھی، اس حادثے کی’’واضح شہادتیں‘‘ لئے ہوئے ہے۔
جرمن ماہر آثار قدیمہ، ورنر کیلر (Werner keller ) لکھتا ہے:
’’اس زبردست دراڑ (Fissure) کے ساتھ‘ جو عین اس علاقے سے گزرتی ہے؛ (موجودہ ) در�ۂسدیم (vale ofsiddim) بشمول سدوم وگمراہ نام کے علاقہ جات (ہزاروں برس قبل ) ایک دن اتھاہ گہرائی میں دھنس گئے۔ اس تباہی کی وجہ ایک طاقتور زلزلہ تھا، جس کی تکمیل غالباً دھماکوں ، بجلی کڑکنے، قدرتی گیس کے (زمین سے) اخراج اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی عمومی آتشزدگی کے ساتھ ہوئی‘‘۔
درحقیقت جھیل لوطؑ یا بحیرہ مردار ، زلزلیاتی خطے (siesmic zone)کے بالکل اوپر واقع ہے۔ یعنی وہ علاقہ جہاں زلزلوں کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
’’بحیرہ مردار کی بنیاد (base ) ارضیاتی اعتبار سے ایک ایسی ساخت کے ساتھ ہے جو نیچے کی سمت جارہی ہے اور اس کی جڑیں، قشر ارض کی پلیٹ میں ہیں ۔ (اسے ارضیات کی اصطلاح میں ’’Tectonic Rooted downfall‘‘ کہا جاتا ہے۔) یہ وادی ایک (ارضیاتی ) تناؤ کے درمیان میں واقع ہے جو شمال میں طبریہ (taberiye) جھیل اور جنوب میں عربہ (Arabah) وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ ‘‘
زیر بحث آیت کے آخری حصے میں یہ بیان کہ ’’اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی تابڑ توڑ (تہہ در تہہ بوچھاڑ کی شکل میں) بارش کردی‘‘ ہر لحاظ سے آتش فشانی دھماکے ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو موجودہ بحیرۂ مردار کے کناروں پر ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے جو چٹانیں اور پتھر ہوا میں اُڑے، وہ سخت گرم اور ’’پکی ہوئی‘‘ حالت میں تھے۔ (سورۃ الشعراء کی 173 ویں آیت میں یہی واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’… اور ان پر برسائی (پکے ہوئے پتھروں کی) ایک برسات۔ بڑی ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔‘‘)
اسی موضوع کے حوالے سے ورنر کیلر لکھتا ہے:
’’زیر زمین (ارضیاتی ) سرگرمیوں کی بناء پر ان (خوفناک) آتش فشانی قوتوں کا اخراج ہوا جو دراڑ کی لمبائی کے ساتھ ساتھ ایک عرصے سے خوابیدہ حالت میں موجود تھیں۔ باشن (Bashan) کے نزدیک ، بالائی واد�ئاردن میں اب بھی معدوم آتش فشانوں کے اونچے گڑھے (craters) موجود ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں لاوے کی عظیم مقدار یں اور بسالٹ کی دبینرتہیں ، چونے پتھر (Limestone) پر مبنی سطح کے اوپر جمع ہوچکی ہیں۔‘‘
لاوے اور بسالٹ کی یہ تہیں اس آتش فشانی دھماکے اور زلزلے کی کھلی شہادت ہیں جو یہاں پر کبھی رونما ہوچکا ہے۔ یہی ہے وہ ’’پکے ہوئے پتھروں کی تابڑ توڑ اور تہہ در تہہ بوچھاڑ کی شکل میں ہونے والی برسات‘‘ جیسا کہ قرآن فرماتاہے۔ ہلاکت خیز آفت (یعنی عذاب الہٰی) یقینی طور پر آتش فشانی دھماکہ ہی رہا ہوگا۔ باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اسی آیت میں ’’جب ہمارے فیصلے ( کے عمل میں آنے کا ) وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو الٹ دیا‘‘ یقیناً ایک زلزلے کا اشارہ ہے جس کی وجہ سے سطح زمین پر آتش فشاں پھٹ پڑے اور ان کے بھیانک اثرات ظاہر ہوئے: زمین شق ہوگئی اور آتش فشانی راکھ (بشمول پتھر اور چٹان ) برسنے لگی۔ اس کی پوری حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے۔
’’واضح نشانیاں ‘‘ جو بحیرۂ مردار (جھیل لوط) سے ظاہر ہوتی ہیں، واقعتاً بہت دلچسپ ہیں۔ عام طور پر قرآن میں جن واقعات کا تذکرہ ہے وہ مشرق وسطیٰ، جزیرہ نمائے عرب اور مصر میں وقوع پذیر ہوئے تھے ۔ ان تمام سرزمینوں کے عین وسط میں بحیر�ۂمردار ہے۔ جھیل لوط اور اس کے اطراف کے علاقہ جات میں ہونے والے واقعات ، ارضیاتی توجہ کے طالب ہیں۔ یہ جھیل بحیر�ۂروم (Mediterranean sea) کی سطح سے 400 میٹر نیچے ہے۔ اب چونکہ خود اس جھیل کا سب سے گہرا مقام (جھیل کی اپنی سطح سے) 400 میٹر مزید نیچے ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جھیل لوط کی تہہ، بحیرۂ روم کی سطح کے مقابلے میں 800 میٹر کی پستی پر ہے۔ یہ زمین پر (یعنی خشکی کے بیچ ) پست ترین مقام ہے۔ سطح سمندر سے پستی پر واقع دوسرے مقامات کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 100 میٹرتک ہے۔ جھیل لوط (بحیرہ مردار) کی ایک اور خاصیت ( جو اس کی وجہ شہرت بھی ہے)، اس کے پانی میں نمک کی غیر معمولی طور پر زائد مقدار ہے جو تقریباً 30 فیصد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس جھیل میں کوئی جاندار ، خواہ وہ مچھلی ہو یا کیٹرا، زندہ نہیں رہ سکتا۔ (علاوہ ازیں اس جھیل میں لہریں بھی نہیں اٹھتیں) یہی وجہ ہے کہ مغربی تصانیف میں (بلکہ دنیا بھر میں ہی) اسے ’’بحیر�ۂمردار‘‘ (dead sea) یعنی مرا ہوا سمندر بتایا جاتاہے۔ قوم لوطؑ کا واقعہ ، جو قرآن پاک میں کئی جگہوں پر مرقوم ہے، حالیہ تخمینہ جات کے مطابق 1800 قبل مسیح (یعنی آج سے 3800 سال پہلے) ظہور پذیر ہوا تھا۔ اپنی اثریاتی اور ارضیاتی تحقیق کی بنیاد پر ورنر کیلر کا خیا ل ہے کہ سدوم اور گمراہ کے شہر، دراصل وادی سدیم میں واقع تھے جبکہ یہ وادی بذات خود موجودہ بحیرۂ مردار کے پست ترین اور بعید ترین کنارے والے خطہ ارضی میں واقع تھی۔ یہاں ایک زمانے میں گنجان آبادی والے وسیع وعریض مقامات کا وجود ہوا کرتا تھا۔ ساخت کے اعتبار سے جھیل لوطؑ کی سب سے دلچسپ خصوصیات وہ ہیں جو قرآن میں قوم لوطؑ کی تباہی کی بابت بیان کردہ آیات کی واضح شہادت فراہم کرتی ہیں۔
’’بحیرۂ مردار کے مشرقی کنارے سے ایک جزیرہ نماساخت ’’اللسان ‘‘ پانی میں دور تک چلی گئی ہے ۔ عربی میں اللسان کا مطلب ’زبان‘ ہے۔ خشکی سے دیکھنے پر اس جزیرہ نما کی زمین غیر معمولی زاویئے پر سطح آب کے نیچے جاکر غائب ہوجاتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ بحیرہ مردار کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جزیرہ نما کے سیدھے ہاتھ پر زمین کی ڈھلوان ( slope) بہت زیادہ ہے اور وہ 1200 فٹ (تقریباً 212 میٹر) کی گہرائی تک چلی گئی ہے۔ اللسان کے الٹے ہاتھ پر پانی کی گہرائی (مقابلتاً ) بے حد کم ہے، گزشتہ چند برسوں کے دوران صوتی پیمائشوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں کی گہرائی 50 سے 60 فٹ(تقریباً 10 میٹر تا 11.5 میٹر) ہے۔ جھیل کا یہ غیر معمولی طور پر اتھلا حصہ، جو جزیرہ نما اللسان سے لے کر انتہائی جنوبی سرے تک پھیلا ہوا ہے ’’درۂ سدیم‘‘ (vale of siddim ) ہوا کرتا تھا‘‘۔
ورنر کیلر نے مشاہدہ کیا کہ یہ اتھلا حصہ، جس کا بعد میں وجود پذیر ہونا دریافت ہوا ہے، مذکورہ بالا زلزلے اور اس کے نتیجے میں زمین کے یکدم نیچے بیٹھ جانے کی وجہ سے وجود میں آیا ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سدوم اور گمراہ کی بستیاں کبھی آباد تھیں، یعنی قوم لوطؑ کے لوگ رہا کرتے تھے۔ایک زمانے میں اس علاقے کو پیدل عبور کیا جاسکتا تھا۔ تاہم اب درہ سدیم (یعنی جہاں گمراہ اور سدوم کے شہر تھے) بحیر�ۂمردار کے زیریں حصے کی سطح آب سے ڈھکا ہوا ہے۔ قبل مسیح کے الف ثانی(second millennium) کی ابتداء میں آنے والی بھیانک آفت کے باعث جب یہ زمین نیچے بیٹھ گئی، تو اس تازہ تازہ بنے ہوئے گڑھے ( cavity) میں شمال سے آنے والا پانی داخل ہونے لگا۔ اس طرح یہ پوری جگہ نمکین پانی سے لبالب بھرگئی۔
جھیل لوط کے آثار نمایاں بھی ہیں۔ جب کوئی شخص کشتی لے کر جھیل کے انتہائی جنوبی سرے کی جانب سفر کرے؛ اور اگر سورج بھی درست سمت میں چمک رہا ہو، تو اسے کچھ حیرت انگیز مناظر دکھائی دیں گے۔ ساحل سے کچھ فاصلے پر ، سطح آب کے نیچے واضح طور پر جنگلات کے خاکے دکھائی دیتے ہیں جنہیں بحیرۂ مردار کے غیر معمولی نمکین پانی نے اپنے اندر محفوظ کرلیا ہے۔ سبزپانی کے نیچے نظر آنے والے تنے اور جڑیں بہت قدیم ہیں۔ وادی سدیم، جہاں یہ درخت کبھی سبزہ بن کر لہلہاتے اور پھول پتیوں کی بہار دکھاتے تھے، اس پورے خطے کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی تھی۔
میکانکی نقطہ نگاہ سے قوم لوطؑ کو نیست ونابود کرنے والے حادثے کی وضاحت ، ماہرین ارضیات کی تحقیق سے بھی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ زلزلہ، زمین میں بہت طویل دراڑ (رخنے کی پٹی یا فالٹ لائن) سے آیا۔ یہ رخنہ ’’ دریائے شریعت ‘‘ (shari’at) کی بنیاد ( bed ) کے ساتھ 190 کلومیٹر کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ دریائے شریعت کی اپنی مجموعی گہرائی 180 میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ جب اس حقیقت کو بحیرہ مردار کی سطح سمندر سے 400 میٹر پستی کے ساتھ منطبق کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ دونوں حقائق، ایک ہی شہادت کے دو مختلف حصے ہیں جو یہ ثابت کرتی ہے کہ یہاں پر کوئی بہت بڑا ارضیاتی حادثہ گزرچکا ہے۔
بحیرہ مردار اور دریائے شریعت کی یہ دلچسپ ساخت، مذکورہ بالا دراڑ یا درز کے بہت چھوٹے حصے کا احاطہ کرتی ہے جو اس خطہ زمین سے گزر رہی ہے۔ اس دراڑ کی کیفیت اور لمبائی کا انکشاف حال ہی میں ہوا ہے۔
رخنے (fault) کا آغاز کوہ ثور (Mount Taurus) کی بیرونی حدود سے ہوتا ہے جو بحیرہ مردار کے جنوبی ساحلوں سے گزر کر صحرائے عرب اور خلیج عقبہ (gulf of aqaba ) کے راستے بحیرہ احمر تک جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کا اختتام افریقہ میں ہوجاتا ہے۔ لمبائی کے رخ پر اس کے ساتھ ساتھ زبردست آتش فشانی سرگرمیاں مشاہدے میں آئی ہیں۔ اسرائیل کے گیلیلی پہاڑوں (galilee mountains) اردن کے بلند مسطح (plain) علاقوں، خلیج عقبہ اور دوسرے نواحی مقامات پر سیاہ بسالٹ اور لاوا موجود ہیں۔
یہ تمام کی تمام باقیات اور جغرافیائی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ جھیل لوط کی جگہ پر کوئی زبردست ارضیاتی سانحہ (آفت یا عذاب الہیٰ ) رونما ہوچکا ہے۔ ورنر کیلر کی اس بارے میں رائے، مذکورہ بالا سطور میں مرحلہ وار بیان کی جاچکی ہے۔
علاوہ ازیں نیشنل جیوگرافک میگزین، اپنی دسمبر 1957 ء کی اشاعت میں کچھ اس انداز سے تبصرہ کرتاہے:’’سدوم کا پہاڑ جو ایک بنجر و بیکار خطہ زمین (wasteland) ہے، بحیرہ مردار سے قدرے اٹھتا ہوا ہے۔ سدیم اور گمراہ کے تباہ شدہ شہر کسی کو کبھی نہیں ملے، مگر صاحبان علم کو یقین ہے کہ وہ (مذکورہ دونوں شہر) انہی چٹانوں کے درمیان درہ سدیم میں پھیلے ہوئے تھے۔ قرین قیاس یہی ہے بحیرہ مردار کے سیلابی پانی نے ایک زبردست زلزلے کے بعد انہیں (دونوں شہروں کو) غرق کردیا‘‘۔
پومپیائی کا بھی یہی انجام ہوا
مندرجہ ذیل آیات میں قرآن حکیم ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ کے قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی:
’’یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے ، حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے ؟ یہی بات ہے کہ تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔
(سورۃ الفاطر۔ آیات 42 تا 43 )
جی ہاں! اللہ کے طریقے (قانون) میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ہر وہ شخص جو اس کے متعین کردہ قوانین کے خلاف کھڑا ہوگا اور ان کی خلاف ورزی کرے گا، اسے انہی قوانین الہٰی کے تحت سزا بھی دی جائے گی۔ سلطنت روم کی تنزلی کی علامت ، پومپیائی کے لوگ بھی (قوم لوطؑ کی مانند) جنسی بے راہ روی، بدفعلی، بدکاری اور غیر فطری فعل کی عادتوں میں مبتلا تھے۔ ان کا انجام بھی بالکل وہی ہوا ، جو قوم لوطؑ کا ہوا تھا۔
پومپیائی کی تباہی، ویسو ویئس ( Vesuvius) آتش فشاں کے پھٹنے سے ہوئی۔یہ آتش فشاں، اٹلی کا طر�ۂامتیاز ہے جو قبل ازیں نیپلس (Naples) کا شہر تھا۔ یہ آتش فشاں پچھلے دو ہزار سال سے خاموش ہے لیکن اس کے نام ’’ ویسوویئس ‘‘ کا مطلب ہے ’’ تنبیہ کا پہاڑ‘‘۔ یہ نام بھی بلاوجہ نہیں رکھا گیا ہے۔ وہ آفت جس نے گمراہ اور سدوم کو نابود کردیا، بالکل ویسی ہی آفت نے پومپیائی کو بھی تباہ وبرباد کیا۔
ویسوویئس پہاڑ کے ایک طرف نیلپس ہے تو دوسری طرف ، مشرق میں پومپیائی واقع ہے۔ یہی پہاڑ آج سے دوہزار سال پہلے اچانک پھٹ پڑا اور یکایک بڑی مقدار میں لاوا اور گرم راکھ، اس سے ابل پڑے اور پومپیائی شہر کے باسی (لاوے اور راکھ میں) گھر کر رہ گئے۔ یہ بھیانک حادثہ اتنی تیزی سے رونما ہوا کہ شہر کی ایک ایک چیز اور ایک ایک باسی، روز مرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے اس کا شکار ہوگیا اور یہ لوگ آج تک اسی حالت میں پڑے ہیں جیسے کہ وہ دوہزار سال پہلے تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے وقت ان کے لئے تھم گیا ہو۔ پومپیائی کی اس انداز میں قدرتی آفت کے ذریعے تباہی یقیناً بے مقصد نہیں تھی۔ تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ یہ شہر بدکاری اور بدفعلی جیسی برائیوں کا عین مرکز تھا۔ یہ شہر بدکاری کے ضمن میں خصوصی شہرت رکھتا تھا اور یہ چیز اس شہر میں اتنی زیادہ تھی کہ وہاں قحبہ خانوں کی درست تعداد تک معلوم نہیں ہوسکی ۔ بے ہودگی اور بے شرمی تمام حدوں کو پارکرچکی تھیں (پومپیائی میں قحبہ خانوں کے دروازوں پر مردانہ اعضائے تناسل کی اصل جسامت کے پتھر کے بنے ہوئے نمونے لٹکائے جاتے تھے)۔ یہاں پر متھرائی (mithraic) عقیدے کے مطابق اختلاط بھی کھلے عام کیا جاتا تھا۔
مگر ویسوویئس کے لاوے نے پورے شہرے کو صرف ایک لحظے میں صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔ اس واقعے کا سب سے عبرتناک پہلو یہ ہے کہ اتنے بھیانک آتش فشانی ابال کے باوجود شہر کا ایک فرد بھی بچ کر نہیں بھاگ سکا ۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں یہ آفت آنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ یا پھر وہ اس آفت کے نزول پر مسحور تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ایک گھرانہ چشم زدن میں پتھرا گیا۔ متعدد جوڑے بحالت اختلاط پتھراگئے۔ ایک اور سب سے توجہ طلب چیز یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی جوڑے، ہم جنس پرستوں کے ہیں جنہیں اسی حالت میں اللہ کے عذاب نے آن گھیرا ۔ گرم راکھ اور لاوے نے انہیں کوئی مہلت دیئے بغیر پتھر کے بتوں میں تبدیل کردیا۔ پومپیائی سے برآمد ہونے والی بعض پتھریلی لاشوں کے چہروں پر بھی خوف کا کوئی نشان نہیں ہے۔ بیشتر لاشوں کے چہروں پر حیرت ، سراسیمگی یا پریشانی جیسے تاثرات عموماً پائے گئے ہیں۔
اس آفت اور آفت رسید گی کا ایک ناقابل فہم پہلو بھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں لوگ کچھ بھی دیکھے اور سنے بغیر موت کا نوالہ بننے کا انتظار کرتے رہے ہوں؟ یہی پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ پومپیائی کے لوگ بھی بالکل ویسے ہی تباہ کن عوامل کا شکار ہوئے جن کے بارے میں قرآن نے وضاحت فرمائی ہے، کیونکہ قرآن جب کبھی ایسے واقعات کا حوالہ دیتاہے تو ’’اچانک تباہی‘‘ کا صرف ایک اشارہ دیتاہے۔ مثال کے طور پر سور�ۂیاسین میں بیان کردہ ’’شہر کے باسی‘‘ ایک لمحے میں تمام کے تمام مرگئے۔ یہ کیفیت سور�ۂیاسین کی 29 ویں آیت میں کچھ اس طرح بتائی گئی ہے:
’’بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر ( اور خاموش ہوکر ) رہ گئے‘‘۔
سورۃ القمر کی 31 ویں آیت میں ایک بار پھر قوم ثمود کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’اچانک تباہی‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے :
’’ہم نے ان پر بس ایک ہی دھماکا چھوڑا اور وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑ کی طرح بھس ہوکر رہ گئے۔‘‘
پومپیائی کے لوگوں کی موت بھی ایسی ہی سرعت رفتاری کے ساتھ ہوئی جس کا تذکرہ مذکورہ بالا آیات میں کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود ، جہاں کبھی پومپیائی تھا، اس کے آس پاس لوگوں نے اب تک کوئی خاص عبرت نہیں پکڑی ہے۔ نیپلس کے اضلاع ، جہاں عیاشی اور اوباشی کی اجارہ داری ہے، پومپیائی والوں کی بے راہروی اور شہوت پرستی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کیپری کا جزیرہ ہم جنس پرستوں اور بے لباسوں کا گڑھ ہے۔ سیاحوں کے لئے نشر ہونے والے اشتہارات میں کیپری کو ’’ ہم جنس پرستوں کی جنت‘‘ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معاملہ صرف کیپری جنریرے یا اٹلی تک ہی محدود نہیں، بلکہ قریب قریب تمام دنیا کی یہی صورتحال ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح اخلاقی زوال پذیری ہروقت روبہ عمل ہے اور آج کے لوگ ، ماضی کی تباہ شدہ، معدوم ومعتوب تہذیبوں کے لوگوں سے عبرت پکڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے ۔