پیپلز پارٹی آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں اسے نئے تقاضوں کے مطابق نئے راستے تلاش کرنے ہیں اور پرانی رکاوٹیں دور کرنی ہیں۔ اس جماعت کے لیے رہنماؤں کی قربانیوں کی بنیاد پر مزید ووٹ حاصل کرنا اب مشکل ہے۔ پارٹی کہتی ہے آج لاہور میں انچاسویں یوم تاسیسں کے موقع پر ایک نئی پیپلز پارٹی جنم لے رہی ہے۔ پارٹی سوشل میڈیا پر ’نیو پی پی پی‘ کا ہیش ٹیگ بھی چلا رہی ہے۔
اپنی مقبول رہنما بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور حکومت بنائی۔ اس نے قومی اسمبلی میں پنجاب سے باسٹھ نشستیں جیتیں تھیں۔ 2013 میں تقریباً اس کا صفایا ہوا اور صرف تین نشستیں ہاتھ آ سکیں۔ دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی میں 106 نشتوں کے مقابلے میں 2013 میں اسے محض آٹھ نشتیں مل سکیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک اسے اپنی ’لائین اینڈ لنتھ‘ درست کرنی ہے ورنہ وہ میچ بھی ہار جائے گی۔
یہ لاہور ہی تھا جہاں پیپلز پارٹی پیدا ہوئی تھی۔ پاکستان میں اقتدار کا منبہ سمجھے جانے والے پنجاب کے اسی دل میں پیپلز پارٹی کے بارے میں عام رائے کافی جارحانہ ہے۔ سڑکوں پر عام لوگوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پہلے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کرنا ہوگا، کوئی کہتا ہے وہی کریں جو پنجاب حکومت کر رہی ہے اور کسی نے کہا کہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور نئے روزگار کے مواقع آج بھی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمان کہتی ہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان ان کی جماعت کا نعرہ ماضی میں بھی تھا اور آج بھی ہے لیکن اب نئے تقاضوں کے مطابق نئے نعرے اور وعدے بھی سامنے آئیں گے۔ ’دہشت گردی ہے، ماحولیات کے مسائل ہیں اور ہاں بے روزگاری ہے۔ یہ چیلنج اس جماعت کی تیسری پیڑھی نے اب حل کرنے ہیں۔‘
لیکن جماعت کو درپیش مسائل عوام سے جڑے نہیں ہیں بلکہ جماعت کی اندرونی مشکلات بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں اس تاثر کو درست کرنا ہو گا کہ اصل رہنما بیٹا نہیں بلکہ ان کے والد ہیں۔ پوری طرح واضح نہیں کہ اہم فیصلے کون کرے گا؟ پھر پی پی پی کی اصل طاقت اس کے جیالے ناراض اور ناامید ہیں اور کہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ انھیں واپس لانا ہوگا۔
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار راشد رحمان نے نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے زرداری صاحب نے پارٹی کا کنٹرول سنبھالا ہے جیالے ان کے فیصلوں سے خوش نہیں ہیں۔ وہ حوصلہ کھوچکے ہیں۔ اس کو ٹھیک کرنا ہے۔ وہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب پارٹی وہیں جائے جہاں سے شروع ہوئی تھی یعنی بائیں بازو کی سینٹر پارٹی بنے۔ اسے عوام، کارکنوں اور دہقان کے لیے کام کرنا ہے پھر ہی پنجاب میں کامیابی حاصل ہوگی۔‘
پنجاب میں پارٹی کے سابق رہنما منظور احمد وٹو کو 2013 میں کامیابی نہیں دلوا سکے تھے۔ تبدیلی ضروری تھی لہذا سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ کو مرکزی پنجاب میں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تو اب عوام، کارکنوں اور کسانوں کے لیے پیپلز پارٹی کا پیغام کیا ہے؟ قمر الزماں کائرہ کہتے ہیں کہ بلاول خود نکلے ہیں ان کارکنوں کو منانے کے لیے۔
’ان (کارکنوں) کا مطالبہ تھا کہ عہدے کارکنوں کو دیے جائیں وہ انھوں نے دے دیے ہیں۔ اب چیئرمین خود مشاورتی عمل کے تحت نچلی تنظیموں کو مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں کارکنوں کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ پالیسی سازی میں مشاورت ہو رہی ہے اور یہ سات روز کی تقریبات اسے سلسے کی ایک کڑی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کو اب نہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد کی ہمدردی حاصل ہے اور نہ اس کے پاس اپنے جیالوں اور کسانوں کے لیے بظاہر کوئی واضح پیغام ہے۔ ایسے میں اس ادھیڑ عمر سیاسی جماعت کی سمت کیا ایک نوجوان تبدیل کرسکے گا؟ سب نظریں اسی پر لگی ہیں۔