تحریر:سیدہ عابدہ حسین
پاکستان کی سابق وفاقی وزیر، امریکہ میں سفیر اور ممتاز سیاست دان سیدہ عابدہ حسین اپنی کتاب پاور فیلئر (جس کا اردو ترجمہ “اور بجلی کٹ گئی” کے نام سے شائع ہوا ہے) میں کئی دلچسپ تاریخی واقعات سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جب وہ 1965 کے سیاسی الیکشن میں ایوب خان سے شکست کھانے والی مادرِ ملت فاطمہ جناح سے ملنے ان کے گھر گئیں۔ آئیے پڑھتے ہیں کہ سیدہ عابدہ حسین کیا بتاتی ہیں۔
مس جناح سے ملاقات یورپ سے پاکستان واپسی کے بعد پہلا ایسا واقعہ تھا جس نے میرے ولولوں پر اوس ڈالی۔ میں اواخر جولائی کی ایک تیز ہواؤں والی صج میں والدہ کے ہمراہ طے شدہ وقت پر موہٹہ پیلس پہنچی۔ میں نے بار ہی دروازے پر کافی دیر تک گھنٹی بجائی۔ آ خِر کار مس جنا ح نے خود ہی دروازہ کھولا۔ وہ ہمیں لے کر ایک تاریک اور حبس زدہ سٹنگ روم میں آئیں۔ محترمہ نے میری ماں کے نام سے پکارتے ہوئے کہا۔ :”کشور کھڑکی کی چٹخنیاں کھول دو۔ تم اور تمہاری بیٹی مجھ سے زیادہ دراز قد اور صحت مند ہو۔‘‘ ہم نے فوراً اِس حکم کی تعمیل کی۔ جیسے ہی ساگوان کی کھڑکی کے پٹ کھلے اور ہوا اور روشنی اندر داخل ہوئی، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ کتنی عمر رسیدہ اور کمزور نظر آر ہی تھیں۔
”چندی ( میرا پیار کا نام ) ابھی ابھی سوئٹرز لینڈِ اور اٹلی سے اپنی تعلیم مکمل کر کے آئی ہے اور عابد کی شدید خواہش تھی کہ یہ آپ کو سلام کرنے آئے، ‘‘ والدہ نے بڑی تعظیم سے کہا۔”بچے، ذرا گھنٹی کو تلاش کرنا تا کہ میری بوڑھی بہری خادمہ آپ لوگوں کے لیے چائے یا لیموں پانی لے آئے۔ کشور تم دیکھ سکتی کہ میرے صوفوں پر ڈھیلا ڈھا لا غلاف پڑا ہے کیونکہ میرے ہاں بہت کم مہمان آتے ہیں۔ ان دنوں وہ سب میری سوتیلی بہن شیریں بائی سے ملانے جاتے ہیں کیونکہ وہ ایوب خان حکومت میں کچھ روابط رکھتی ہے۔ اگر میرے بھائی نے یہ سب کچھ دیکھا ہوتا تو کیا وہ پاکستان بنانے کے لیے اتنی انتھک کوشش کرتے؟ کیا اُنہوں نے کبھی ایک بے آئیں ملک کی خواہش کی ہوتی جہا ں انصاف نہ ہو اور چاپلوسی اور خوشامدی اتنے طاقتور بنے ہوتے، جہاں باضمیر اور معزز لوگ کم ہونے لگتے۔ پاکستان نے ایسا ہی روپ اخیتار کرنا تھا اس کا بنانا محض ایک احمقانہ غلطی ہی تھی۔‘‘
میں نے اپنے جسم میں ایک جھرجھری دوڑتی محسوس کی اور اِس ظلمت آفرین گفتگو سے جلد از جلد فرار ہو جانا چاہتی تھی۔ مستزاد یہ کہ واپس آ کر جب میں نے والد کو یہ سب کچھ بتایا تو انہوں نے کہا، ” میں جانتا ہوں مس جناح کیسا محسوس کر رہی ہیں۔ جب حسین شہید سہروری اور مجھ پر ایبڈو (یعنی منتخب اداروں کی نا اہلی کا حکم ) کے تحت مقدمہ چلا تو ہمیں بھی اسی طرح کے وسوسے لاحق ہوئے۔ کیونکہ بہرحال ہم اس ملک کے بانیوں میں سے تھے۔ میں اُس وقت ایک نوجوان اور نسبتاً غیرنمایاں کھلاڑی تھی۔ لیکن سہروردی تو ہمارے ملک کی مشرقی حصے کو بنانے والوں میں تھے۔ لیکن غاصب نے ہمیں نمائندگی کے لیے نا اہل قرار دے دیا جبکہ اُس ملک کے اصل معماروں کا بنایا ہوا آئیں منسوخ کر دیا اور اُس کے بجائے خود بنایا ہوا ایسا آئین مسلط کر دیا تھا جس نے عوام کو حقِ رائے دہی سے محروم کر دیا۔ ہمارے ہاں فوجی آمریت کی وجہ سے ہندوستان کو ہم پر برتری ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہم پر حاوی ہونے کی کوشش کرے گا۔ ‘‘