مغرب میں چلنے والی اس تحریک کے ساتھ ساری مسلم اور غیر مسلم خواتین کھڑی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ مجھے کیا پہننا ہے اس کا فیصلہ مجھے خود کرنا ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری عورتیں برہنہ گھومنا چاہتی ہیں؟ نہیں بلکل نہیں، اس تحریک کا حصہ بن کر یہ خواتین اپنے لیے اپنے مزاج، اقدار، طبیعت یا مذہب کے مطابق لباس کے انتخاب کا اختیار چاہتی ہیں۔
آج کل مغرب میں موجود کئی ممالک میں نقاب پر پابندی عائد کی جا رہی ہے وہاں انسانی حقوق کی تنطیمیں یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ میرا جسم میری مرضی۔ مجھے حق ہے کہ میں نقاب پہنوں یا حجاب لوں یا جس طرح کے کپڑے میری طبیعت سے میل کھائیں، میں پہنوں۔ جب یہ بات مغرب میں موجود مسلمان عورتوں کے حق میں غیر مسلم کرتے ہیں تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے لیکن اگر یہی بات پاکستان میں کوئی عورت کر دے تو اخلاقیات اور مذہب کے ٹھیکیدار ان عورتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان خواتین کے ذریعے مغرب مسلمانوں اور ان کی اقدار کے خلاف کوئی سازش کر رہا ہے۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی عورت اپنا لباس خود چننے کا حق مانگتی ہے تو کیا وہ مادر پدر آزاد ہو جائے گی؟ آپ کو خدا کا خوف ہے تو کیا اسے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں؟ اسلام تو پوری دنیا کے لیے آیا تھا اسی لیے اسلام نے ہر چیز بشمول لباس کے بنیادی اصول بتائے۔ اپنے علاقے، ثقافت اور موسم کے لحاظ سے لباس مختلف ہو سکتا ہے ہاں بس اس میں عریانیت نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی عورت یا مرد بےحیائی کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو نہ اسے برقع روکتا ہے نہ داڑھی، اگر ایسی بات ہوتی تو مدرسوں میں بد فعلی کا ایک بھی واقعہ رپورٹ نہ ہوتا۔
اگر ایک عورت کو خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں ہے یا اس نے اپنی طرف سے مناسب لباس پہنا ہے پر اس کے کپڑے آپ کے بنائے ہوئے “ٹھیک لباس” کے پیمانے پر پورا نہیں اتر رہے اور وہ آپ کی نظر میں گناہ کی مرتکب ہو رہی ہے تو اس کی فکر کرنے سے پہلے آپ اپنی عاقبت سنوار لیں۔ الله کی نظر میں اس عورت اور آپ میں کوئی فرق نہیں، اس عورت کو تو بعد میں مناسب لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے، پہلے آپ کو نظریں جھکانے کا کہا گیا ہے۔ اگر آپ کی آنکھیں نیچی ہیں تو آپ کو نہ کسی کی چست قمیض نظر آئے اور نہ ہی اونچی شلواریں۔ ایک اور بات اپنی گرہ میں باندھ لیں، آپ خدا کو قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہم نے نظریں اس لیے نہیں جھکائیں کہ عورت نے نا مناسب لباس پہنا ہوا تھا۔
“جو دکھا رہی ہو، وہی دیکھ رہے ہیں” کی دلیل اتنی ہی کمزور ہے جتنا بدنام مردوں کا کردار ہے۔ مجھے خود بھی اس کا تجربہ ہے۔ میں نے نقاب بھی پہنا ہے، بڑی چادر بھی اوڑھی ہے اور پاکستانی روائیتی شلوار، قمیض بمع دوپٹہ بھی زیب تن کیا ہے لیکن کسی لباس نے بھی مرد کی نظر کو جھکنے پر مجبور نہیں کیا۔ یہاں ڈنمارک میں آپ شلوار قمیض پہنیں یا برقع، جینز پہنیں یا سکرٹ، کوئی آپ کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ خرابی دوسرے کے لباس میں نہیں بلکہ آپ کی تربیت میں ہے۔
ہمارے یہاں لڑکوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کسی کے لباس، جسمانی معذوری، موٹاپے، رنگ و نسل یا کسی اور وجہ سے کسی بھی شخص کو دیر تک دیکھنا بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کسی خاتون کو اس کے لباس یا شکل کی وجہ سے گھورتے رہنا بھی انتہائی نا مناسب ہے۔
کسی کا کوئی بھی لباس آپ کو اسے گھورنے کا حق نہیں دیتا۔ ہر خاتون کو آزادی ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے لیے اپنی مرضی کا لباس منتخب کرے۔ اسی اصول کی بنیاد پر ہم مغرب میں عورتوں کے برقع اور حجاب پہننے کا دفاع کرتے ہیں پر ہماری بدقسمتی ہے کہ اس اصول کا اطلاق ہم اپنی خواتین پر نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم منافق ہیں۔
ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارے۔ کسی بھی انسان سے اس کا یہ بنیادی حق نہ چھینیں۔ مذہب اور اخلاق کی تعلیم صرف عورت کے لیے مختص نہ کریں بلکہ مردوں کو بھی دیں تب کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا، تب بھی نہیں جب وہ کہیں “میرا جسم،میری مرضی”۔