معروف کالم نگار محمود شام اپنے کالم”آج ذکر غریب اکثریت کے بچوں کا”میں بیان کرتے ہیں کہ آج اتوار ہے یعنی بچوں بچیوں سے ملنے ملانے، ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات پر انہیں مطمئن کرنے کا دن۔ میں خوش ہوں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ سمندر پار پاکستانی بھی اس روایت کو پسند کر رہے ہیں۔ دوپہر بچوں کے ساتھ گزارنے کا رجحان تقویت پا رہا ہے۔ ہم نے پچھلے اتوار والدین کی توجہ اسکول ٹرانسپورٹ کی طرف دلائی تھی۔ اکثر والدین نے کہا کہ یہ انتہائی اہم اور حساس موضوع ہے۔ جس سے ہماری آئندہ نسلوں کی تربیت اور سلامتی کا تعلق ہے مگر ہم اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ بچے ڈرائیور انکل اور کنڈیکٹر انکل سے ڈرتے ہیں۔ وہ سخت ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ بچوں کےماں یا باپ کبھی اس لہجے میں بات نہیں کرتے جس طرح ڈرائیور مخاطب ہوتے ہیں۔ کچھ ماں باپ نے ہمت کی اور اسکول جاکر اس سلسلے میں معلومات بھی حاصل کیں۔ اسکول والے بھی متاثر ہوئے اور ٹرانسپورٹ والے بھی۔ ہم میں ایک یہ عادت پڑ گئی ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ یہ کام والدین اور اسکول انتظامیہ کے کرنے کے ہیں۔ اس میں بھی ہم حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ہم سنجیدگی سے وقت نہیں نکالتے۔
ہمارے ایک سینئر صحافی اور دیرینہ رفیق کار ضمیر نفیس نے ایک اور بہت اہم نکتہ اٹھایا کہ ہم اتوار کو جن والدین سے مخاطب ہوتے ہیں، وہ تو زیادہ تر اعلیٰ طبقے اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ملک میں اکثریت ایسے والدین کی ہے جو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے اتوار کو بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ بچوں کے لیے وقت نکالیں بھی تو کیسے؟ یہ دلیل اپنی جگہ اہم ہے اور ہماری اکثریت اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں زیادہ تر محنت کش ہیں جو کسی چوراہے پر اپنے اوزار لیے روزگار کے منتظر ہوتے ہیں۔ بہت سے گھریلو ملازمین ہیں۔
میڈیا اس وقت حکومتی محکموں اور دوسرے شعبوں سے زیادہ غالب ہے۔ اس لیے اس کا بھی فرض ہے کہ وہ اس اکثریت یعنی 90فیصد کی زندگی آسان بنانے کے لیے کچھ پروگرام مسلسل کرے۔ لیکن اصل ذمہ داری تو اس اکثریت کی ہے کہ وہ بھی اس زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے انسانوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے لیے روڈ میپ تشکیل دینا چاہئے۔ یہ ان کے اپنے بچے ہیں، جگر کے ٹکڑے ہیں اور ملک کا زورِ بازو ہیں۔ اگر یہ اپنے بچوں پر توجہ دیں گے تو نہ صرف اپنی گھریلو ذمہ داری پوری کریں گے بلکہ قومی فریضہ بھی انجام دیں گے۔