پچھلے چند دنوں سے میڈیکل سٹور مالکان کی طرف سے شٹر ڈائون ہڑتال کی جا رہی ہے جس کے باعث عوام الناس سخت تکلیف میں ہیں۔ لوگ حسب عادت حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ آخر وہ ان کے مطالبات کیوں نہیں مان رہی۔
سٹور مالکان کہتے ہیں کوالیفائیڈ پرسن جس کے نام پر لائسنس بنا ہوا ہے اسکی موجودگی کو لازمی قرار نہ دیا جائے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گاڑی کا لائسنس تو ایک شخص کا ہے اور اس کی بجائے کوئی اور گاڑی چلا رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس لائسنس تو ہے نا خواہ کسی اور کا ہی کیوں نہ ہو۔
تو جناب! دوائیوں کی فروخت کے لئے ڈرگ سیل لائسنس ہوتا ہے جو کہ دوائیوں کے ماہر کو ہی ایشو کیا جاتا ہے جس کے پاس مطلوبہ تعلیم بھی ہو۔ اس کے علاوہ مطالبہ ہے کہ پنجاب ڈرگ بل2017ء کو کینسل کیا جائے۔ کیونکہ اس میں غلطیوں پر سزائوں کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو غلطی اور جرم میں فرق کو سمجھنا چاہیے اور واضح کرتا جائوں کہ یہ سزائیں جرائم پر بڑھائیں گئی ہیں اور ان میں زیادہ تر جرمانہ ہے۔ جو کہ ابھی تک 1976ء کے مطابق تھا۔ آپ ذرا سوچیئے کہ تب روپے کی کیا ولیو تھی اور آج کتنی گر گئی ہے۔
ہم ان ترامیم کا ذرا تقابلی جائزہ لیتے ہیں جو کہ ان میڈیکل سٹوروں پر لاگو ہوتی ہیں۔ ایسا شخص جو کسی جعلی (سپوریئس) دوائی کو برآمد، درآمد یا تیار کرتا ہے یا بیچتا ہے۔ یا بغیر مینو فیکچرنگ لائسنس کے کوئی دوائی بناتا ہے یا جو کسی بھی ٹمپریچر سنسیٹو دوائی کو ایسے ماحول میں بنائے ترسیل کرے یا بیچے جو کہ اس دوائی کی افادیت کو ضائع کرنے کا سبب بنے یا کوئی کسی بھی ڈرگ کو بغیر لائسنس کے درآمد کرنے کا مرتکب ہو تو ایسے شخص کو دس سال تک قید کی سزا ہوگی جو کہ تین سال سے کم نہ ہوگی اور50ملین تک جرمانہ ہوگا جو کہ 25ملین سے کم نہ ہوگا۔
ڈرگ ایکٹ 1976ء میں بھی اس جرم کی قید کی سزا تو اسی طرح تھی مگر جرمانہ صرف ایک لاکھ تھا۔ اب دیکھا جائے تو میڈیکل سٹور مالکان پر تو اس سزا کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ اگر وہ کمپنی کے نامزد ڈسٹری بیوٹر سے کوئی دوائی لیتے ہیں اور ان کے پاس درست بیچ نمبر کے ساتھ ورانٹی موجود ہے تو اگر جعلی دوائی نکل بھی آتی ہے تو وہ بری الذمہ ہیں اور وارنٹی دینے والا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح ڈسٹری بیوٹر کو کمپنی وارنٹی دیتی ہے۔
درحقیقت ڈرگ لاء کو سمجھنے کے لیے بھی ماہر یعنی کہ فارماسسٹ ہونا ضروری ہے۔ یہ سٹور مالکان انتشار پسند قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ میڈیا بجائے اس کے کہ کسی ایکسپرٹ سے تبصرہ کرواتا بلکہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور ترمیم یہ ہے کہ جو شخص کسی کونٹر فیئٹ ڈرگ کو درآمد کرے، بنائے یا بیچے یا خریدار کو غلط ورانٹی دے یا رجسٹرڈ نام کے علاوہ کسی اور نام پر کوئی دوائی درآمد کرے یا کسی ایسی دوائی کو درآمد کرے، برآمد کرے یا بیچے جس میں کوئی ایسی چیز ملائی گئی ہو جس سے اس دوائی کی کوالٹی یا طاقت کم ہو تو ایسے شخص کو سات سال کی سزا ہوگی جو کہ دو سال سے کم نہ ہوگی اور جرمانہ 10ملین ہے جو کہ 3ملین سے کم نہ ہوگا۔
ڈرگ ایکٹ 1976ء میں قید کی سزا تو سات سال ہے مگر جرمانہ ایک لاکھ تک ہے۔
جو کسی انسپکٹر کو ایکٹ کے تحت اپنی پاورز استعمال کرنے سے روکے اسے ایک سال تک سزا ہوگی جو کہ 14 دن سے کم نہ ہوگی اور جرمانہ 10 لاکھ تک ہوگا جو کہ 5 لاکھ سے کم نہ ہوگا۔ پہلے قید کی سزا تو ایک سال تھی مگر جرمانہ صرف 10 ہزار تھا۔
سب سٹینڈرڈ ڈرگ کو بر آمد کرنے، در آمد کرنے یا بیچنے کی سزا 5سال قید اور 50 ملین جرمانہ ہے جو کہ 10ملین سے کم نہ ہو گا۔ پھر بات وہیں آتی ہے کہ اگر بیچنے والے کے پاس درست وارنٹی ہو تو وہ بری الزمہ ہے اور وارنٹی دینے والا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے دوائیوں کے کام کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھا ہوا ہے۔ جن لوگوں کو ادویات کے بارے میں بالکل بھی پتہ نہیں ہے، وہ یہ کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان لوگوں میں ڈرگ لاء کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس متعلقہ تعلیم نہیں۔
دوائیوں کے متعلق درست معلومات کا علم فارماسسٹ کو ہے جو کہ کے بعد 5 سال تک دن رات صرف میڈیسن کو پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فارماسسٹ اس ترمیم کے حق میں ہیں کیونکہ اس سے ہمارے ملک میں میڈیسن کا معیار بہتر ہو گا اور پاکستان کے لوگوں کو بھی انسان سمجھ کر دوائی دی جائے گی۔
اس کے علاوہ شیڈول جی کی بھی یہ لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسے سٹور جن کے پاس کیٹیگری B کا لائسنس ہے اور ان کا کوالیفائیڈ پرسن اسسٹنٹ فارما سسٹ ہے تو وہ سٹور والے شیڈول جی کی دوائیاں نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ اسسٹنٹ فارماسسٹ وہ ہوتا ہے جو کم از کم دوسال میڈیکل سٹور پر کام کرنے کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اسسٹنٹ فارمیسی کا امتحان پاس کرتا ہے اور تعلیم میٹرک رکھتا ہے۔
کوئی بھی ذی شعوری نہیں چاہیے گا کہ ان سزائوں کو کم کیا جائے کیونکہ ان جرائم سے انسانوں کی موت تک واقع ہو سکتی ہے۔
میری عوام سے اپیل ہے کہ یہ جو چند لوگ کہ اپنی لا علمی کی وجہ سے کچھ شاطر لوگوں کے ہاتوں استعمال ہو رہے ہیں۔ انہیں سمجھایا جائے۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے تاکہ یہ ناجائز احتجاج ختم ہو اور خدا نخواستہ ہم کسی بھی قسم کے سانحے کا شکار نہ ہو جائیں۔
یہ ہڑتال پہلے بھی کئی مرتبہ کی گئی مگر چونکہ مطالبات ناجائز تھے، اس لئے ہر بار یہ ہڑتال نا کام رہی۔ اب چونکہ الیکشن قریب ہیں، سیاستدانوں نے اپنا ووٹ بنک بھی بنانا ہے، ڈر ہے کہ ان کے ناجائز مطالبات مان نہ لیے جائیں۔