فیڈریشن اور چیمبرز کے صدور کی وزیراعظم عمران خان سے وزیراعظم ہائوس میں حالیہ ملاقات میں ملکی معاشی صورتحال پر گفتگو ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ اس وقت کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کوئی ٹرانزیکشنز نہیں ہو رہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا تعلق 40 دیگر شعبہ جات سے ہے اور رئیل اسٹیٹ کاروبار ٹھپ ہونے سے یہ تمام سیکٹرز بھی متاثر ہو رہے ہیں، جس کا منفی اثر ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ بزنس کمیونٹی کے لیڈرز نے وزیراعظم کو ایک نئی ایمنسٹی اسکیم کی تجویز دی۔ وزیراعظم نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو ہدایت دی کہ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد انہیں نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے تجاویز پیش کریں۔ اس سلسلے میں فیڈریشن نے 25 مارچ کو پورے پاکستان کے بزنس کمیونٹی کے لیڈرز کے ساتھ ایک اہم میٹنگ رکھی تھی، جس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر انجینئر دارو خان، نائب صدور، افتخار علی ملک، ایس ایم منیر، عبدالسمیع خان، ملک بھر کی چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے سربراہان نے شرکت کی اور نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے تجاویز دیں۔ بزنس کمیونٹی نے نئی ایمنسٹی اسکیم کی تجویز کی پرزور حمایت کرتے ہوئے گزشتہ ایمنسٹی اسکیم کی 2، 3 اور 5 فیصد جرمانے اور ٹیکسز کی شرح پر نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے اتفاق کیا۔ بزنس لیڈرز نے تجویز دی کہ سخت قوانین کے پیش نظر اور آئی ایم ایف سے معاہدے سے پہلے حکومت کو چاہئے کہ وہ نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرے جس پر وزیر خزانہ اسد عمر نے بجٹ سے پہلے نئی ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کا عندیہ دیا ہے۔
ملکی اور غیر ملکی اثاثوں اور رقوم کو ظاہر کرنے کی گزشتہ ایمنسٹی اسکیم کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2018تھی، جس کو بڑھاکر 28 فروری 2019ء کردیا گیا تھا، اس اسکیم سے 81ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے میں 1.67 ارب روپے جمع کرائے۔پارلیمنٹ سے منظور شدہ ایمنسٹی قانون کے تحت ایف بی آر ایمنسٹی حاصل کرنے والوں کی معلومات کسی ادارے یا شخص سے شیئر کرنے کا مجاز نہیں۔ یہاں میں ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین جہانزیب خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بے انتہا دبائو کے باوجود گزشتہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی کسی قسم کی معلومات شیئر کرنے سے انکار کردیا۔ جہانزیب خان نے مجھے بتایا کہ انہوں نے عدالت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کہا کہ میں ایمنسٹی قانون کے تحت ان معلومات کا امین ہوں لہٰذا میں یہ معلومات شیئر نہیں کر سکتا۔ دبئی میں غیر ملکی اثاثوں کی معلومات کے سلسلے میں ایف آئی اے کو معلومات فراہم کرنے کا کہا گیاتھا، جس پر ایف آئی اے نے دبئی میں جائیداد رکھنے والوں کو نوٹسز جاری کئے تھے جس پر بزنس کمیونٹی میں شدید ردعمل سامنے آیا اور ایس ایم منیر اور دیگر بزنس لیڈرز نے وزیراعظم عمران خان سے اس سلسلے میں بات کی جس پر وزیراعظم نے فوری طور پر متعلقہ ادارے کو ہدایت کی تھی کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کو ہراساں نہ کیا جائے جسکے بعد تمام نوٹسز واپس لے لئے گئے، جس پر بزنس کمیونٹی وزیراعظم عمران خان کی شکر گزار ہے۔ اسی سلسلے میں میری چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان سے اسلام آبادمیں خصوصی ملاقات ہوئی۔ جس میں مَیں نے ان سے نئی ایمنسٹی اسکیم پر دی جانے والی فیڈریشن کی تجاویز پر گفتگو کی۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر کو بتایا کہ پاکستان میں دو ایسے فیصلے کئے گئے تھے جس سے بزنس کمیونٹی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا تھا اور وہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔ پہلا فیصلہ بھٹو حکومت کا صنعتوں کا قومیا لیا جانا اور دوسرا نواز شریف حکومت کا فارن کرنسی اکائونٹس کا منجمد کرنا تھا اور تیسرا غلط فیصلہ ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہراساں کرنا ہو گا۔ پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے تحت ملک میں فارن کرنسی اکائونٹس کھولنے اور ان اکائونٹس میں آزادانہ پیسے لانے یا لے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اس سلسلے میں بینک تمام معلومات راز میں رکھنے کے پابند تھے، جس کی وجہ سے بے شمار بزنس مین اپنی ظاہر شدہ رقوم ملک میں لائے اور قانونی طریقے سے انہی اکائونٹس کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کئے، جنہیں اُنہوں نے اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں بھی ظاہر کیا لیکن اب انہیں بھی ہراساں کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ میں چیئرمین ایف بی آر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے حالیہ فیڈریشن کے دورے میں ہماری درخواست پر کاروباری شخصیات اور انکے اداروں پر چھاپے مارنے، کمپیوٹر اور ریکارڈ ضبط کرنے جیسے مسائل کے حل کیلئے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ایف بی آر کی ڈائریکٹر پروگرام امبرین افتخار کو بزنس کمیونٹی کے مسائل چیئرمین ایف بی آر تک پہنچانے اور انہیں حل کرنے کیلئے فوکل پرسن مقرر کیا جو ایک نہایت مثبت قدم ہے۔ اس سلسلے میں چیئرمین ایف بی آر نے اس طرح کے مسائل حل کرنے کیلئے میری دو رکنی کمیٹی کی تجویز کا بھی خیر مقدم کیا تاکہ بزنس کمیونٹی کی ہتک نہ ہو سکے۔دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بیرونِ ملک اپنا سرمایہ رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور آج وہی لوگ مطمئن ہوں گے جنہوں نے میرے مشورے پر عمل کر کے اپنے اثاثوں کو قانونی شکل دی کیونکہ ان کی سرمایہ کاری اور دولت پاکستان میں سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ ایمنسٹی اسکیم پر میں پانچ کالم لکھ چکا ہوں جس میں مَیں نے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تمام ایمنسٹی اسکیموں کا جائزہ لیا تھا۔ میں باقاعدہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے نقطۂ نظر سے متفق ہوں کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس نادہندگان ایماندار ٹیکس دہندگان کے مقابلے میں نہایت کم ٹیکس ادا کر کے اپنے اثاثے اور آمدنی کو قانونی بنا لیتے ہیں، جس سے ایماندار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن ملک میں 70 سالوں سے بے نامی ٹرانزیکشنز بھی ایک حقیقت ہے اور موجودہ حکومت اور ایف بی آر کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس وقت ہماری غیر دستاویزی معیشت کا حجم دستاویزی معیشت سے بڑھ چکا ہے، جس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے حکومت کو ایمنسٹی اسکیم کی طرح کی ترغیبات دینا ہوں گی تاکہ نادہندگان ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں اور ملکی معیشت بحال ہو سکے۔