طیبہ تشدد کیس میں وزارت داخلہ اورتمام خفیہ ادارے حرکت میں آگئے، نادرا ریکارڈ میں طیبہ کے دعوے دار والدین کا شجرہ ملا اور نہ ہی فیصل آباد میں چھاپوں کے دوران طیبہ مل سکی۔
دوسال پہلے ننھی طیبہ والدین کے بغیر رہ رہی تھی لیکن معاملہ عدالتوں میں آیا تو ایک نہیں تین تین والدین دعوےدار بن گئے۔سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد تمام اداروں سے رپورٹس طلب کی گئیں،تو وزارت داخلہ نے بھی کمال پھرتی دکھاتےہوئے نادرا کو بچی کے دعوے دار ماں باپ کی تحقیقات کی رپورٹ جلد مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔نادرا نے طیبہ کو اپنی بچی کہنے والی دو ماؤں، باپ کی تصاویر اور سپریم کورٹ میں دیے گئے شناختی کارڈ نمبرز حاصل کر کے اُن کے ڈیٹا کی پڑتال کی توپتہ چلا کہ نادراکے ڈیٹا میں دعوے دار ماؤں اور باپ کا فیملی ٹری ہی موجود نہیں۔کوثر بی بی زوجہ محمد نواز کے شناختی کارڈ پر شوہر کا نام تو موجود ہے لیکن ریکارڈ میں نہ تو شوہر کا شناختی کارڈ نمبر موجود ہے اور نہ بچوں کی معلومات ہے۔فیصل آباد کے محمد ظفر کی شادی کا تو نادرا میں اندراج ہی نہیں، محمد ظفر کی زوجہ فرزانہ بی بی کا شناختی کارڈ بھی اپنے والد کے نام پر ہے۔نادرا میں طیبہ کے دونوں دعوےدار والدین کی نہ صرف اپنی شادی بلکہ بچوں کا بھی کوئی ریکارڈ نہ ملا، معاملہ مشکوک ہونے پر اسلام آباد پولیس نے فیصل آباد میں طیبہ کی پھوپھی پٹھانی بی بی کے گھر چھاپہ بھی مارا جہاں سے کچھ برآمد نہ ہو سکا۔سوال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے طیبہ کو بغیر شناخت ا ورڈیٹا کے عجلت میں والدین کےحوالے کیوں کیا گیا؟کیا عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس طیبہ کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی؟اِس کہانی میں ایک اور موڑ یہ ہے کہ جڑانوالہ کے گاؤں کے نمبردار نے تحریری تصدیق کی ہے کہ طیبہ محمد اعظم کی بیٹی ہے، وہی محمد اعظم جو بچی کو لیکر منظر سے غائب ہو چکا ہے۔نادرا سے تو معلومات نہ مل سکیں اب طیبہ کے اصل والدین کی شناخت کا عمل ڈی این اے ٹیسٹ سے ہی ہوگا لیکن ڈی این اے کے لیے پہلے طیبہ کا ملنا ضروری ہے تاکہ تینوں دعوےدار والدین کا ڈی این اے طیبہ سے میچ کیا جا سکے۔