تحریر: مریم ثمر
ایک سچا مسلمان جو حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی ،کسی بھی اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے .اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا سوال ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے افضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ،اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے ،اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ کی تو ہین تو ایک طرف ،ہلکا سا ایسا لفظ نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔
جان و دلم فدائے جمالِ محمد است خاکم نثار کو چہء آل محمد است (میری جان و دل محمدت صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد ت صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوچے پر قربان ہے) میرے سیدو مولیٰ حضرت محمد ۖکی عزت و ناموس پر اگرکوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعا لیٰ کے ( الحجر:96) میں بیان فرمودہ اس فرمان کے کہ یقینا ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے کافی ہیں ،کی گرفت میں آجائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا۔ میرے آقائے دو جہاں کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔آپ ۖکے مقام ،آپۖکے مرتبے ،آپۖکی عزت کو ہر لمحہ بلند کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریمپر درود بھجتے ہیں (الاحزاب :57)پس یہ مقام صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملا ہے ۔یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے۔ہمارے سیدو مالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے ،آپ ے ہر قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیاطرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی ،یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعا لیٰ نے فضل کیا اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔”اے ایمان والوں!تم درودو سلام بھیجو نبی پر۔”(الحزاب :57)پس اگر ہم نے آنحضرت کی پیروی کرنی ہے اور آپ کی امت کے ان افراد میں شامل ہونا ہے جو مسلمان ہونے کا حقیقی حق ادا کرنے والے ہیںتو پھر ہمیںصدق و صفا کے ساتھ ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جن کا حکم ہمیں خدا تعا لیٰ نے دیا ہے اپنی زبانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھجنے سے تر رکھنا ہے تا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکیںاور ان برکتوں سے فیض پا سکیں جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
قرآن کریم میںخدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر حالت میںسچائی پر چلنے ،امانت و دیانت کا حق ادا کرنے۔
اپنے عہدوں کو پورا کرنے ،رحمی رشتوں کا پاس کرنے ،مخلوق ِخدا کی ہمدردی اور ان سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے ،صبر و حوصلہ دکھانے،عفو کا سلوک کرنے ،عاجزی اور انکساری دکھانے اور ہر حالت میںخدا تعالیٰ پرتوکل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے علاوہ بہت سے احکامات ہیںجن کی اعلیٰ ترین مثال آپ ت صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمائی۔پس ہر مسلمان کا یہ فرض ہے ۔کہ جب اپنے سیدومولی پر درود بھیجے تو ان نمونوں کو قائم کرنے کی کوشش کرے ، تب اس صدق و صفا کا اظہار ہوگا جو ایک مسلمان اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرتا ہے۔ اور جب یہ ہوگا تو ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجا جانے والا درود ،وہ درود کہلائے گا جو شکر گزاری کے طور پر ہوگا۔
جیسا کہ ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب انسانی نفس میں جوش اور غصہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی زبان بے قید ہو کر سخت سست کلمات کہتی اور ایک تیز کاٹنے والی قینچی کی طرح چلنے لگتی ہے ۔اس کے مقابلہ میں شیریں گفتاری، شیریں کلام ،کلام میں ادب و حیا کا لحاظ رکھنا ،پاک باتیں کرنا ،ذکرالہی کرنا ،صفاتِ باری تعالی کا ورد ،استغفار اور درودشریف پڑھنے سے انسان کے دل کی نورانی کھڑکیاں کھلتی ہیں اور یہ وہ حکمت ہے جس کے پیش نظر تمام انبیاء نے اپنے ماننے والوں کو یہی تعلیم دی کہ لوگ تمہیں دکھ دیں ،گالیاں دیں تو تم ان کے مقابل تلخ کلامی نہ کرنا بلکہ حوصلہ،صبر اور استقلال کے ساتھ ایک روحانی پہلوان کی طرح اپنی اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرنا۔ اصل چیز جو اس صدق و وفا کے تعلق کو جاری رکھنے والی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ہے ۔اگر مسلمان اس پیغام کی حقیقت کو سمجھتے ہوں ، اور اس خوبصورت پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن جائیں تو آج یہ حالات نہ ہوں۔اگر وہ حقیقت میں رسول اللہ ت صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل کر رہے ہوتے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جاتا۔اگر چند مفاد پرست قانون کی آڑ میںناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوتے بھی یا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے تو قانون ان کو مجرم بنا کر اس مفاد پرستی کی جڑ کو اکھیڑ دیتا۔پس اگر ناموس رسالت کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس تقوی کو تلاش کریں جو آنحضرت ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
اگر ہم نے اسلام اور آنحضرت کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزا سے پاک کرنا ہے تو دنیا کو آنحضرت ت صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے لا کر ہی کرنا ہوگا، کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے فساد اس وقت ختم ہوں گے جب ہم آنحضرت ۖکی اصل تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور لیکن قوانین بنا کر اگر اپنے مفادات حاصل کررہے ہوں گے تو ہم بھی توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔
حقیقی خوشی اس وقت ہو گی اور ہونی چاہیے جب دنیا کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت قائم ہو جائے گی جس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے اگر سختی کی بجائے عفو اور پیار کا مظاہرہ اور نمونہ دکھائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دکھایا تو پھر یہی اسلام کی خدمت ہو گی۔
خدا تعالی کے تمام نبیوں نے یہ ہی تعلیم دی ہے کہ صبر ورضا کی عادت ڈالو ،نرمی اختیار کرو ،دین کے معاملے میں نہ خود تشدد اختیار کرو نہ ہی دشمن کے تشدد کا جواب تشدد سے دو ،چنانچہ چشم فلک نے یہ نظارہ تو ہمیشہ دیکھا ہے کہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کو ان کے مخالفین نے مظالم کا نشانہ بنایا ،ان کے جان و مال اور عزت و آبرو پر حملہ کیا۔ فحش کلامی اور گندہ دہنی سے ان کے سینہ و دل کو چیرا گیا،لیکن بندگانِ خدا نے بوجہ اعلی درجہ کے ظرف اور شجاع اور بہادر ہونے کے ہمیشہ درگزر سے کام لیا اور زمین آسمان نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ انبیاء علیھم السلام اور ان کے پیرو کاران نے کبھی منکرین پر محض دین وایمان کے معاملے میں تشدد کیا ہو ،یا ان کی گالیوں کے جواب میں فحش کلامی کو اپنا شعار بنایا ہو ،بلکہ اپنے نفسیانی جوشوں کو دبایا غصہ کے وقت محض ر ضائے الہی کے حصول کے لئے غصہ پی لیا اور اس تلخی کو جو موت کی تلخی کے ہم پلِّہ ہے بڑی پامردی اور برد باری اور تحمل کے ساتھ گوارا کیا ۔اور بلاآخر اس ا خلاقی قوت کے بل بوتے پر متکبر دشمن کے دل جیت کر انہیں اپنا گرویدہ بنالیا ۔جوش نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال کرنے والوں کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا۔
یہ ہے ایک مسلمان کا آنحضرت نے سے عشق و وفا کا تعلق۔یہ ہے آنحضرت کی ناموس ِ رسالت کہ غیر کا منہ بند کرنے کے لئے ہم اسوئہ رسول پر عمل کرنے کی کوشش کریں،نہ کہ ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑائیں اور غیر کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع دیں۔اور صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ اپنے عملوں کی وجہ سے اپنے پیارے آقا سید المعصومین نے کے متعلق دشمن کو بہودہ گوئی یا کسی بھی قسم کے ادب سے گرے ہوئے الفاظ کہنے کا موقع دیں ،اگر مخالفین اسلام کو ہماری کمزوری کی وجہ سے آپ کے بارے میں کچھ بھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو ہم بھی گنہگار ہوں گے ،ہماری بھی جواب طلبی ہو گی کہ تمہارے فلاں عمل نے دشمن کو یہ کہنے کی جر ا ت دی ہے ۔کیا تم نے یہی سمجھا تھا کہ صرف تمہارے کھوکھلے نعروں اور بے عملی کے نعروں سے رسول نے سے پیار کا اظہار کرنے والے بن سکتے ہو۔۔اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو عمل چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں کے لئے یہ بڑا خوف کا مقام ہے۔ جہاں تک دشمن کے بغضوں، کینوں اور اس وجہ سے میرے پیارے آقا کے متعلق کسی بھی قسم کی دیدودہنی کا تعلق ہے استہزا کا تعلق ہے اس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر فرما دیا ہے کہ ان کے لئے میں کافی ہوں۔
تحریر: مریم ثمر