وقت کا صحیح استعمال
ہر شخص کی زندگی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ماضی اچھا تھا یا مستقبل اچھا ہو گا۔
ماضی کی تلخ و شیریں یادیں جن میں تبدیلی نا ممکن ہوتی ہے، بس ہم پچھتاوا کر سکتے یا فخر کر سکتے ہیں۔ حال منصوبہ بندی کے لیے ہوتا ہے ۔ اگر حال خوشحال ہو تومنصوبہ بندی بھی بہتر ہو گی اور حال اگر حال و بے حال ہے تو پھر منصوبہ بندی بھی مخدوش قِسم کی ہو گی۔ مستقبل میں یہ خوبی ضرور ہے کہ انسان امید پہ زندہ ہے اور وہ مستقبل کے بارے میں ہمیشہ سہانے سپنے دیکھتا ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہو۔ مستقبل کی منصوبہ بندی جو بھی ہولیکن بہترین منصوبہ بندی وہ ہے جس میں اپنی ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت کو بھی سامنے رکھا جائے۔ انسان ہمیشہ آسائشات چاہتا ہے اور ان کے لیے ہی منصوبہ بندی کرتا ہے تا کہ آنے والے وقت میں اپنی زندگی لذتوں میں گزار سکے۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ لذتیں زیادہ دیر قائم نہیں رہتیں۔ جیسا کہ گرمی میں ٹھنڈا پانی پیاس کی حد تک ہی پیا جا سکتا ہے۔دھوپ موسمِ سرما میں کچھ دیر کے لیے تو لذت دے سکتی ہے زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتی ۔ کھانے کی لذت بھی بھُوک کی حد تک محدود ہے۔ کوئی بھی انسان لذتوں کے دریا میں طویل عرصہ تک غوطہ زن نہیں رہ سکتا۔ضرورت سے زیادہ کسی چیز کا استعمال ہلاکت نہیں تو بیماری کا سبب ضرور بنتا ہے۔ اگر بے راہ روی کی لذتوں کا ذکر کریں تو کوئی وقت آتا ہے کہ انسان کے پاس ملال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
منصوبہ بندی میں اچھے اعمال کو ضرور مدِ نظر رکھا جانا چاہئیے کیونکہ وقت تو کوئی نظر آنے والی چیز نہیں۔ بس ایک ہی رفتار سے چلتا چلا جا رہا ہے۔ نہ رکتا ہے نہ تھکتا ہے۔ اس کا سب سے چھوٹا پیمانہ لمحہ ہے۔ جو لوگ اس چھوٹے سے چھوٹے پیمانہ لمحہ کو بھی ضائع کیے بغیر وقت کے ساتھ چلتے ہیں اور اپنے اعمال کو درست سمت میں رکھتے ہیں ، اچھے اعمال میں اچھے اعمال ملاتے چلے جائیں تو نتیجہ تریاق کی شکل میں نکلے گا اور یہ اعمال کے شفاف پانی کے چشمے کا بہاؤ اسے صراطِ مستقیم کی مانند سیدھا جنت میں لے جائے گا۔ اس میں اگر ذرا سا بھی گندا پانی شامل ہو جائے تو نتیجہ برعکس بھی ہو سکتا ہے۔
یوں تو انسانی زندگی کا آدھا وقت ، اس سے ذرا زیادہ یا ذرا کم حالتِ نیند میں گزر جاتا ہے ۔ کچھ وقت فارغ بیٹھنے میں اور کچھ وقت فضول مشاغل میں گزرتا ہے۔اور کچھ وقت سواری کے انتظار میں، بجلی، پانی، گیس اور ٹیلی فون کے بل جمع کروانے کے انتظار میں گزرتا ہے۔ اس طرح ایک زندہ اور ایک مردہ انسان میں کتنا فرق رہ جاتا ہے۔
اپنے وقت کے استعمال میں اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق اپنے اللہ سے رابطہ اور امید وابستہ رکھیں۔ حصولِ علم یا کوئی تکنیک کے حصول میںیا سپورٹس میں اپنا وقت صرف کریں اور با عزت زندگی گزارنے کے لئے خود مختار اور خود کفیل ہوں۔حصولِ دولت میں نا جائز ذرائع استعمال کرنے میں اپنا وقت بالکل ضائع نہ کریں۔ کیونکہ دولت کی حرص انسان کو ذلت کی موت دیتی ہے۔ وقت کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ آپ کووقتاٌ فوقتاٌ جھنجھوڑتا ہے۔ جب یہ ہاتھ سے نکل جائے تو تب کیا پچھتانا جب چڑیاں کھیت چُگ گئی ہوتی ہیں۔
دنیا کا کوئی کام نا ممکن نہیں صرف منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے اچھے نصب العین کو قلب و ذہن میں رکھتے ہوئے اس سمت چل پڑیں جدھر آپ کا مقصد ہے۔ منزل قدموں میں آ ہی جاتی ہے۔