نواز شریف بھی چلے گئے ، فضل الرحمٰن بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ، اب ناکامی کو اپنے گلے کا ہار بنانے کی بجائے عمران خان یہ 3 کام کریں اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہو جائیں ۔۔۔۔ پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر نے زبردست مشورہ دے دیا
لاہور (ویب ڈیسک) نوازشریف لندن پہنچ گئے…… ان کے جانے سے پہلے بھی میڈیا پر بہت کچھ کہا اور لکھا گیا اور امید ہے کہ جانے کے بعد بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا۔شخصیت پرستی کا جو بھوت ہم پاکستانیوں کے سروں پر سوار ہے وہ اترنے میں وقت لے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
نامور مضمون نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔رہیں گی دمِ مرگ تک خواہشیں ۔۔۔ طبیعت کوئی آج بھر جائے گی؟ ۔۔۔ حکومت نے نوازشریف کو جانے کی جو اجازت دی ہے اس پر نہ صرف ملک کی آبادی کا ایک غالب حصہ ناراض ہے بلکہ خود پی ٹی آئی کے بعض زعماء بھی ناخوش ہیں۔ اس پر میڈیا میں بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ عمران خان کو آخر کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے ”انسانی ہمدردی“ کی بنا پر یہ اقدام اٹھایا۔ انسانی ہمدردی کا یہ جواز نہائت لولا لنگڑا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے نوازشریف سے کوئی ڈیل کر لی ہے۔ لیکن یہ ”نہ نہ کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے…… کرنا تھا انکار،مگر اقرار تمہی سے کر بیٹھے“ کے مصداق عمران خان نے اپنے سیاسی قد کاٹھ کو اتنا چھوٹا کیوں کر دیا ہے کہ ان کو بار بار کا اپنا ہی تھوکا چاٹنا پڑا۔ طرح طرح کے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں …… کیا ان پر کوئی خارجی دباؤ تھا؟…… کیا چودھری برادران کا مشورہ تھا؟…… کیا اپنے دوسرے رفیقانِ کار کی خواہش کا احترام تھا؟…… کیا ان کی اہلیہ محترمہ کو کوئی خواب آیا تھا کہ نوازشریف کو لندن بھیج کر ثوابِ دارین حاصل کیا جائے؟…… آخر کیا سبب تھا کہ نہ صرف ان کو باہر بھیج دیا گیا بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ میرا ماتھا کئی روز سے ٹھنک رہا تھا کہ وزیراعظم کی ”خاموشی“ اور ان کی ”انسانی ہمدردی“ کے پس پردہ ضرور کوئی اور بول رہا ہے……
آخر یہ راز کھل ہی گیا۔راز یہ ہے کہ عمران خان کو چین کی طرف سے کہا گیا کہ نوازشریف کو جانے دیا جائے۔ میرے خیال کے مطابق بعض اوقات کسی بڑے عہدے پر پہنچ کر کسی بڑے آدرش کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند کا مفہوم یہی ہے کہ بعض رموزِ مملکت خسروانِِ مملکت کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بظاہر اپنے نقصان کو برداشت کریں اور آنے والے وقت میں اس نقصان کا بدلہ کسی بڑے فائدے کی صورت میں حاصل کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کو لندن بھیجنا، عمران خان کا ٹیکٹیکل نقصان ہے جبکہ اس کا سٹرٹیجک فائدہ مستقبلِ قریب میں ان کو (اور پاکستان) کو ملنے والا ہے. پرسوں (19نومبر) پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ”پاکستان سٹڈی سنٹر“ کے زیر اہتمام ایک محفلِ مباحثہ منعقد ہوئی جس میں چینی اور پاکستانی دانشوروں نے حصہ لیا۔ چین کے ڈپٹی کونسل جنرل پنگ ینگ وُو
(Peng Zengwu)
نے اپنے خطاب میں کہا: ”کسی بھی ملک میں ایک مستحکم سیاسی سسٹم از حد ضروری ہوتا ہے کہ اس میں نقل و حرکت کی آسانیاں اور کاروبار کے بہتر مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جو غیر ملکی سرمایہ کار اور کاروباری لوگ پاکستان میں آتے ہیں ان پر ملک میں نقل و حرکت کی کھلی آسانیاں میسر ہونی چاہئیں۔ وہ جہاں چاہیں آ جا سکیں، جس قسم کا کھانا چاہیں کھا سکیں، رہائش کی ایسی سہولتیں فراہم ہوں جو زیادہ مہنگی نہ ہوں اور ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا عام اور سستا ہو کہ اس کے ذریعے سرمایہ کار اور دوسرے غیر ملکی شہری آزادانہ سفر کر سکیں“۔
خارجی امور کے ماہر ایک پاکستانی مسٹر محمد مہدی نے کہ جو اس نشست کی صدارت کر رہے تھے کہا کہ اگرچہ کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی لیکن اس کے باوجود پاک چین روابط اور
CPEC
کے منصوبوں کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ان معاملات میں پاکستان کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے پھر بھی ان سے عہدہ برآ ہونے کے امکانات کی بھی کوئی حد نہیں۔ مسٹر مہدی نے مسٹر لی جیان زاؤ
(Lijian Zhao)
جو چین کی وزارت خارجہ میں محکمہ ء اطلاعات کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیں کے اس بیان کا خیر مقدم کیا کہ جس میں انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ جس کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر قارئین کرام کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ چین بھی سابق وزیراعظم نوازشریف کے لندن جانے پر خوش تھا اور ہے۔ اور یہ ”خوشی“ بے وجہ نہیں۔ چین کی وزارتِ خارجہ اپنے بیانات کو برسرعام کرنے سے پہلے کئی بار سوچتی ہے کہ اس کا امپیکٹ (اثر) بیرونی دنیا پر کیا ہو گا۔ جب چین کا ڈپٹی ڈائریکٹر اطلاعات پاکستانی عدلیہ کے فیصلے پر صاد کرکے خوش ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی تو لیا جا سکتا ہے کہ خود چینی صدر مسٹر شی نے عمران خان کو اشارہ دیا ہو گا کہ نوازشریف کو باہر بھیجو تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آئے۔اور نہ صرف چینی سرمایہ کار پاکستان آ جا سکیں
بلکہ دوسرے غیر ملکی تاجر بھی پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کر سکیں۔ میرے خیال میں پنجاب یونیورسٹی کے ”پاکستان سٹڈی سنٹر“ لاہور میں اس تقریب کا اہتمام اسی غرض سے کیا گیا ہے کہ نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کو حکومت کا ایک مستحسن اقدام قرار دیا جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ چین نے اعلیٰ ترین سطح پر وزیراعظم پاکستان کو اس بات پر قائل کر لیا ہو گا کہ سیاسی استحکام کسی بھی ملک کی تجارتی ترقی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم ایک طویل عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت غیر مستحکم اور ڈانواں ڈول ہے۔ اس کا استحکام، سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ جس ملک میں سیاسی انتشار اور افراتفری پھیلی ہوئی ہو، وہاں باہر سے کوئی بھی چھوٹی بڑی سرمایہ کاری نہیں آ سکتی۔حکومت کی طرف سے اگرچہ کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے کمرشل اشاریئے پاکستان کے حق میں جا رہے ہیں، ہماری درآمدت کم ہو رہی ہیں اور برآمدات بڑھ رہی ہیں،بیرونی خسارہ کم ہو رہا ہے اور روپے کی قدر نسبتاً مائل بہ استحکام ہے۔ اگر یہ معاشی بہتری
(Improvement)
موجودہ سیاسی خلفشار کے باجوجود آ رہی ہے تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ اگر اس خلفشار کو رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل ہو جائے تو معاشی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ وزیراعظم کے سامنے، نواز شریف کو باہر بھیجنا ایک چیلنج بنا ہوا تھا۔ ان کی اپنی پارٹی کے کئی لوگ بھی اس حق میں نہیں تھے
کہ کسی سزا یافتہ مجرم کو اس طمطراق
(Pomp and Show)
کے ساتھ بیرون ملک بھیج دیا جائے۔یہ گویا عمران خان کے سامنے اپنی اَنا، اپنے اصولوں اور اپنے آدرش کی قربانی تھی جس کے لئے انہوں نے حد درجہ استقامت کا مظاہرہ کیا،”انسانی ہمدردی“ کا جواء کھیلا اور مستقبل کے اس عہدِ نو کو سامنے رکھا جس کی نوید انہوں نے انتخابات سے پہلے بار بار قوم کو دی تھی۔نواز شریف کو باہر بھیج کر انہوں نے ملک میں سیاسی استحکام کی آمد کو مدنظر رکھا ہے۔ مولانا کا دھرنا اور ان کا پلان بی پاکستان دشمنوں کی ایک چال تھی جو ناکام بنا دی گئی۔جب مَیں مولانا کے الٹی میٹم کو یاد کرتا ہوں تو ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر تھی تو مولانا کو ایسی جرأت کیونکر ہوئی کہ وہ فوج کو للکاریں۔یاد کیجئے انہوں نے آزادی مارچ سے قبل اور بعد میں بھی کئی بار برملا اعلان کیا کہ ”اداروں“ کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔چنانچہ یہ ادارے حدود میں رہے اور مولانا کے دھرنے اور پلان بی کا جو حشر ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ سنا ہے کہ ان کا پلان سی(سی) بھی اب آ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا انجام بھی پہلے پلانوں سے مختلف نہیں ہو گا اور جے یو آئی ف کو دم دبا کر پسپائی اختیار کرنی پڑے گی…… کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جس دن نواز شریف کا طیارہ (ایئر ایمبولینس) لندن میں لینڈ ہوا،اسی دن مولانا نے اپنے پلان بی کے خاتمے کا اعلان کر دیا…… اللہ اللہ خیر سلا…… مولانا صاحب!۔۔ایں کار از تو آئدد ”مرداں“ چنیں کنند ۔۔اب نواز شریف لندن جا چکے اور مولانا بھی پلان اے اور پلان بی سے بھاگ چکے۔ لیکن اگر اب بھی ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوا تو اس کی ذمہ داری براہِ راست وزیراعظم اور فوج پر ہو گی کہ دونوں ایک ہی صفحے پر بتائے جاتے رہے ہیں۔میری نظر میں حکومت کو اب تین کام کرنے چاہئیں ……(1) نون لیگ کی کور کمیٹی یا وہ بی ٹیم جو اب جیل سے باہر ہے اس کو کسی نئے سیاسی بیانیے کو اختراع کرنے سے روکنا ہو گا۔……(2) اگر نون لیگ اور پی پی کوئی نئی”اختراع“ گھڑ کر سیاسی استحکام کو متزلزل کرتی ہیں تو ان سے سختی سے نمٹنا ہو گا۔……(3) اس میڈیا کو لگام دینی ہو گی جو اپنی ڈولتی اور ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لئے برخود غلط تجزیہ کاروں اور مبصروں کی منڈلیاں اپنے ٹاک شوز میں لا کر بٹھائیں گے اور ملکی امن و امان کو درہم برہم کرنے کی سازش کریں گے۔
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 48
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276