کیا ٹریفک ٹھیک کرنے کےلیے اجازت کی ضرورت ہے؟
سینٹرل لندن میں ایک قریبی دوست کے ساتھ کھانے پرجانے کااتفاق ہوا۔ فیصلہ ہواکہ اجویرروڈپر اَن گنت حلال ریسٹورنٹ ہیں، لہٰذاوہاں جایاجائے۔ ویسے برطانیہ یاکسی بھی مغربی ملک میں پاکستانی کسی غیرحلال چیزکواستعمال کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ مگر جیسے ہی خوراک کامسئلہ آتاہے، صرف ایک سوال ہوگاکہ یہاں گوشت حلال ہے کہ نہیں۔ انھوں نے کبھی کسی میکدے میں جاکراتناقیمتی سوال نہیں ضایع کیا۔ یہ ایک سماجی المیہ ہے اورہرایک کے علم میں ہے۔
محسوس کیاکہ دوست تھوڑاساپریشان ہے۔ سمجھ نہ پایاکہ مسئلہ کیاہے۔ خیرریسٹورنٹ کے نزدیک پہنچے تو بے چینی کی وجہ سمجھ میں آگئی اوروہ کیفیت میرے اندر بھی عودکرآئی۔ سوال تھاکہ گاڑی کہاں پارک کی جائے۔ گاڑی کھڑی کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ سڑک پر مختلف نشان لگے ہوئے تھے۔ گاڑیاں صرف ترتیب میں ہی لگائی جاسکتی تھیں۔ پچیس منٹ ادھرادھربھٹکتے رہے۔ پارکنگ کی کوئی جگہ نہ نظرآسکی۔ دوست کہنے لگا کہ سینٹرل لندن میں ہرجگہ پرتقریباًیہی حال ہوگا۔ اتنے میں ایک خالی جگہ حادثاتی طورپرنظرآگئی۔ اس کے ساتھ کالے رنگ کاایک میٹرلگاہواتھا۔ گاڑی لگائی۔
میٹرمیں ادائیگی کے بعدچٹ لی اورایجویرروڈپرایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ وہاں ماحول بہترین تھا۔ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک گھنٹہ گزرگیا۔ کھانا کھاتے ہوئے یک دم دوست اُٹھااورباہرچلاگیا۔ دس منٹ بعد آیاتوتعجب سے پوچھاکہ خیریت، کہاں گئے تھے۔ بتانے لگاکہ پارکنگ ایک گھنٹے کے لیے تھی۔ جاکراس کالے میٹرمیں دوبارہ پیسے ڈالے ہیں اور پارکنگ کومزیدساٹھ منٹ کے لیے مختص کرلیا ہے۔ خیر جب واپس آئے تو دو گھنٹے گزرنے والے تھے۔ کھانا کھانے کے بعدواپس ایسٹ کراؤڈن چلے گئے۔
محسوس ہواکہ سینٹرل لندن میں رش کے وقت جانا مناسب بات نہیں۔ کیونکہ پارکنگ کے لیے جگہ ملنی حد درجہ مشکل ہوجاتی ہے۔ اپنے دوست سے ذکرکیاتووہ ہنسنے لگا۔ دس سال سے لندن میں رہ رہاہوں۔ مگرکوشش کرتاہوں کہ اگردن کے وقت سینٹرل لندن جانا ہو تو بذریعہ ٹرین یابس جاؤں۔ میرے لیے یہ جواب حیرت انگیزتھا۔ کیونکہ لاہوریاکراچی یاکسی بھی بڑے شہرمیں متمول بلکہ اوسط درجے کاشہری پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا پسندنہیں کرتا۔ میرادوست توخیرسے ڈاکٹرہے۔ اور امیر شخص ہے۔ میری حیرت کوبھانپ کر کہنے لگا۔ لندن میں بس یاٹرین کے استعمال کاسماجی اسٹیٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں ارب پتی لوگ بھی وقت بچانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس دن سے لے کرآج تک جب بھی لندن یاکسی مغربی ملک میں گیاہوں تومقامی بس یاٹرین استعمال کرتاہوں۔
یہ واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ ہے۔ تین دن پہلے لاہورمیں دوپہرکے وقت برکت مارکیٹ جانے کااتفاق ہوا۔ گارڈن ٹاؤن میں موجودیہ مارکیٹ خاصی پرانی ہے۔ قطعاًاندازہ نہیں تھاکہ دوپہرکووہاں ٹریفک کے کیامعاملات ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تومارکیٹ میں داخل ہونے میں بیس منٹ لگ گئے۔ صرف اس لیے کہ ایک صاحب اپنی کارکومخالف سمت سے لائے ہوئے تھے، ان کی اس حرکت کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھاکہ آپ گاڑی کوآگے لے جائیں۔ بیس منٹ میں تقریباًپچاس کے قریب گاڑیاں پھنس گئیں۔
آپ آگے جاسکتے تھے اور نہ پیچھے۔ انتہائی بے بسی سے کھڑے ہوئے صرف ارد گرد د یکھنے کی سہولت موجودتھی۔ دوردورتک ٹریفک پولیس کا عملہ موجودنہیں تھا۔ خیر ایک نوجوان رضاکارانہ طور پر آیا۔ اس کی معمولی سی محنت سے میں بیس منٹ بعدبرکت مارکیٹ داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
برکت مارکیٹ میں ون وے ٹریفک ہے۔ پارکنگ کے لیے بھی کم ازکم ماضی میں بہترین انتظام تھا۔ مگراس وقت صورتحال یہ تھی کہ ہرطرف سے سیلاب کے پانی کی طرح گاڑیاں اُمڈاُمڈکرآرہی تھیں۔ ون وے کے احترام کاتوخیرسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ موٹر سائیکل، ہاں موٹرسائیکل پتنگوں کی طرح ہرطرف سے سڑک پر برس رہے تھے بلکہ رینگ رہے تھے۔ اگراس وقت تین چارسوگاڑیاں تھیں تو موٹر سائیکلوں کی تعدادبہرحال اَن گنت تھی۔ وہ سڑک، گھاس، باغ، فٹ پاتھ، دکانوں کے درمیان ہرطرف موجودتھے اورآجارہے تھے۔ پہلی باراحساس ہواکہ ملک میں موٹرسائیکلوں کی آبادی کے حساب سے تعدادمختص ہونی چاہیے۔ ان کی سالانہ کھپت پرحکومت کی طرف سے ایک چیک ہوناچاہیے۔ اس وقت توکسی کویہ معلوم نہیں کہ لاہورشہرمیں کتنے لاکھ موٹرسائیکل ہیں۔
جس پلازے میں جاناتھا، وہ مارکیٹ کے آخر میں تھا اوراگرمخالف سمت سے آئیں توشروع میں تھا۔ وہاں پہنچاتونظرآیاکہ گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں کاایک طوفانِ بدتمیزی ہے اورپلازہ اس میں تیررہا ہے۔ پارکنگ ملنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ اردگرد دیکھا توفٹ پاتھ پربھی لوگوں نے پارکنگ کی ہوئی تھی۔ فون پر جہاں جاناتھا، رابطہ کیا۔ وہ شخص اپنے آفس سے نیچے آگیا۔ مگر وہ بھی بے بس تھا۔ کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ گاڑی کومحفوظ نہیں بلکہ غیرمحفوظ طریقے سے ہی پارک کر دیا جاتا۔ انتہائی ادب اورتکلیف کے ملے جلے جذبات سے اپنے اس دوست سے معذرت کی اورواپس آگیا۔
وجہ صرف اورصرف گاڑی کی پارکنگ کانہ ملنا تھا۔ گھر واپس پہنچنے تک تین گھنٹے گزرچکے تھے۔ انتہائی اہم بات جو ذہن سے نکل گئی۔ پوری برکت مارکیٹ میں ٹریفک پولیس کاایک بھی سپاہی موجودنہیں تھا۔ مگراس ملک میں قائدین سے لے کرعوام میں ہرطرح کے نوادرات اور عجوبے موجودہیں۔ لہٰذاگلہ کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔
عرض کرنے کامقصدحددرجہ سادہ ہے۔ تمام بڑے شہروں کی طرح لاہورکی ٹریفک وہ اژدہابن چکی ہے جو اس شہرکے مکینوں کاسکون نگل چکاہے۔ دن کے مصروف اوقات میں کہیں بھی چلے جائیے۔ بالکل ایک جیسا حال ہے۔ بے ترتیبی، وہی بے ہنگم قسم کی ٹریفک، ٹریفک پولیس کے عملے کانہ ہونایاغیرفعال ہونا۔ یہ صرف ایک شہرکی کہانی نہیں۔ کراچی سے چلیے اورہرشہرمیں سے گزرتے جائیے۔ آپ کوبد نظمی نظرآئیگی۔ کیاواقعی ٹریفک ایک اتنابڑامسئلہ ہے، جسکوکنٹرول کرناناممکن ہے۔ ہرگز نہیں۔ نیویارک، ماسکو، لندن، ٹوکیو اور دیگر جگہ چلے جائیے۔ ہر شہر میں، ٹریفک کے جن کوبوتل میں بند کرنے کے خاطرخواہ انتظام موجود ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کو حد درجہ آرام دہ کردیا گیاہے۔ ٹرین کے سفرکوفوقیت دی گئی ہے۔ نیویارک کی مثال لیجیے۔ انڈرگراؤنڈ ٹرین 1870 میں موجود تھی۔ الیفرڈ بیچ نے دراصل 1869 میں انڈر گراؤنڈ سب وے کا کامیاب تجربہ کرلیاتھا اور صرف ایک سال بعدیہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے موجودتھی۔ آج اس کی چھتیس شاخیں ہیں۔ مجموعی طور پر اٹھائیس طرح کی مختلف ٹرینیں چلتی ہیں۔ 2019 میں نیویارک سب وے پرپونے پچاس کروڑ لوگوں نے سفر کیا۔ اس میں ارب پتی سے لے کر مزدور طبقہ، سبھی شامل تھے۔ لندن کی مثال سامنے رکھیے۔
1851میں میٹرو پولیٹین ریلوے کو انڈرگراؤنڈٹرین بنانے کی اجازت مل چکی تھی۔ دنیامیں عام آدمی کے لیے انڈر گراؤنڈٹرین یا سب وے کی پہلی منظم کوشش تھی۔ جس وقت برطانوی حکومت، لوگوں کے ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے یکسوتھی اوردوسری مغربی حکومتیں اس کی نقل کرنے میں مصروف تھیں۔ عین اسی وقت برصغیرمیں عوامی سطح کی ترقی یاسہولتوں کارجحان دیکھنے میں نہیں آتا۔ 1857 سے پہلے کی عرض کررہا ہوں۔ یہاں نواب، راجے، مہا راجے، سلطان اور بادشاہ موجودتھے۔ جنکے پاس دنیا کی تقریباً چالیس فیصد دولت موجودتھی۔ مگر شاندار محلات، قلعے، مذہبی عمارتیں، مقبرات بنانے کے علاوہ ان میں کوئی وصف نہیں تھا۔ ہاں، ایک شوق ہندوستان کے مقتدرطبقے میں یکساں تھا۔ وہ تھاسیکڑوں بلکہ کئی بار ہزاروں کی تعدادمیں خواتین پرمبنی حرم رکھنے کا شوق۔
آج حالات کافی حدتک تبدیل ہوچکے ہیں۔ مگر ہماری حکومتوں کا عوامی فلاح کے لیے بامقصداقدامات کرنے کارجحان انتہائی پست ہے۔ کوئی قرض لے کر میٹرو بناتاہے، پھرہروقت اپنی کامیابی کاڈھول پیٹتا رہتا ہے۔ کوئی غریب لوگوں کے لیے ایک پلاسٹک کارڈ بناتا ہے، اورمبارک بادلیتے لیتے دم پھلادیتا ہے۔ جدید دنیاکی طرزپرہمیں کوئی سہولت میسرنہیں۔ بہرحال یہ مرثیہ ہے اورٹریفک کی بدنظمی اس مرثیے کامعمولی سا حصہ ہے۔
ہاں، یاد آیا۔ سنا ہے، ہمارے صوبے میں ایک حکومت بھی ہے۔ جس کے ماشاء اللہ ایک وزیراعلیٰ بھی ہیں۔ بتاتے ہیں کہ وہ ہرکام مرکزی حکومت سے پوچھ کرسرانجام دیتے ہیں۔ چلیے، ٹریفک کے معاملے میں ہی کوئی کارکردگی دکھانے کی جسارت کر دیں۔ لاہورکومزیدبدصورت ہونے سے بچالیں۔ شائد وزیراعلیٰ کے پاس، ٹریفک کو درست کرنے کاوقت نہیں یایہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ کام بھی مرکزی حکومت سے پوچھناپڑے؟