جب فلم کا مقصد بڑا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فلم نے باکس آفس پر بڑا بزنس کیا یا نہیں۔ اداکار، ہدایت کار، قلم کار عدنان سرور کی فلم موٹرسائیکل گرل کا مقصد بھی بڑا ہے، یہ الگ بات کہ بڑے بڑے سنیما خالی پڑے ہیں۔ یقین جانئیے یہی فلم اگر بھارت میں بنتی توپروڈکشن اور پروموشن سے ڈسٹریبیوشن تک تمام معاملات میں بے انتہا توانائی بھر دی جاتی۔ سارا مسئلہ شاید پیسے کا ہے۔
عدنان سرور اس سے پہلے معروف اولمپین حسین شاہ پر “شاہ” نامی فلم بھی بنا چکے ہیں۔ کیونکہ یہ ہے بایوپک کا معاملہ لہٰذا پاکستان میں انہوں نے اتنی ہمت بھی کرلی تو بڑی بات ہے۔ 2015 میں سوا کروڑ کی لاگت سے بننے والی فلم شاہ باکس آفس پر بمشکل اپنی لاگت پوری کرپائی تھی۔ اس فلم نے تقریباً ایک کروڑ سے کچھ زائد کا بزنس کیا تھا (یہ معلومات انٹرنیٹ سائٹس سے لی گئی ہیں)۔
اس بار عدنان نے پھر ہمت کی اور لاہور کی حقیقی موٹرسائیکل گرل زینتھ عرفان کی زندگی پر ایک فلم بنا ڈالی۔ “شاہ” میں عدنان نے خود مرکزی کردار ادا کیا تھا اور موٹرسائیکل گرل میں وہ مرکزی کردار نبھانے والی سوہائے علی ابڑو سے جڑے دکھائی دیے۔ ان کا کردار کیا ہے اس کے لیے فلم دیکھنا ضروری ہے ورنہ سسپنس ختم ہوجائے گا۔
دیگر کرداروں میں ثمینہ پیرزادہ، سرمد کھوسٹ، علی کاظمی، شمیم ہلالی، مندانا زیدی اور دانیال راحیل شامل ہیں۔ ثمینہ پیرزادہ کی اداکاری پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا البتہ فلم میں ان سے زیادہ دلچسپ اور نمایاں رول شمیم ہلالی کا ہے جن کے بے ساختہ اور سادہ جملوں نے فلم بینوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ مندانہ زیدی کا بے باک کردار بھی نوجوان لڑکیوں کوبھائے گا جو معاشرے کی تنگ نظری سے تنگ ہیں۔
فلم میں امریکا پلٹ علی کاظمی جو پاکستان کے مشہور و معروف اداکار جوڑی راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی کے بیٹے ہیں اپنے کردار کو بخوبی نبھانے میں کامیاب رہے۔ زینتھ کے باس کا رول کرنے والے سرمد کھوسٹ نہ جانے کیوں سنجیدہ کردار میں بھی غیر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ شاید میرے ذہن پر اندھیرا اجالا کا “کرمداد ڈریکٹ حوالدار” سوار ہے، یعنی عرفان کھوسٹ۔ بڑے فنکار کے یہاں پیدا ہونا بھی بڑا مسئلہ ہے، آپ کو جسٹیفائی کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے سخت محنت۔ اس فلم میں بھی کئی بار ایسا لگا کہ سوہائے کو سخت انداز میں ڈانٹتے ڈانٹتے وہ اچانک ہنس دیں گے، پر ایسا ہوا نہیں۔ میرے خیال میں منٹو کے کردار میں وہ زیادہ اچھے لگے۔ دانیال راحیل کا تعلق بھی فنکار گھرانے سے ہے لہٰذا انہیں پتہ ہے کب کیا اور کون سے ایکسپریشنز دینے ہیں۔
جیسے میں نے شروع میں کہا کہ جب فلم کا مقصد بڑا ہو تو بہت سے معاملات، غلطیاں اور کمزوریاں پس پشت ڈالی جاسکتی ہیں۔ فلم میں سوہائے کا ایک ڈائیلاگ “۔۔۔تو لائف کتنی فرق ہوتی” کھلم کھلا اردو کا منہ چڑا رہا تھا۔ سوچیں کوئی کہے یا لکھے، “اگر ہم نمک ڈال لیتے تو کھانا کتنا فرق ہوتا”۔ “اگر ہم رنگ کرلیتے تو دیوار کتنی فرق ہوتی”، وغیرہ وغیرہ۔ایک سین میں سوہائے لفظ “خاص” کو “کھاص” کہتی ہیں تو علی کاظمی ان کی تصیح کرتے دکھائی دیے۔ لیکن دوسرے سین میں یہی سوہائے “خنجراب پاس” کو “کھنجراب پاس” نہیں کہتیں، البتہ علی کاظمی پوری فلم میں خنجراب کے “خ” پر پیش لگاتے رہے اور سوہائے “زبر”، اسی تکرار میں ان کا خواب تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ اب چونکہ عدنان خود ہی فلم کے رائٹر ہیں تو اتنا تو بنتا ہے لیکن کوئی بھی ناقد یا فلم بین چھوٹی سی غلطی بھی دل پر لے سکتا ہے۔ فلم میں سوہائے کا میک اپ بھی اچھا نہیں ہوا۔ کئی سینز میں گردن اور چہرے میں فرق صاف ظاہر تھا۔ سوہائے سے اچھا میک اپ تو پیاری دوست، کولیگ اور بہن عظمیٰ نعمان کا تھا جو محض چند لمحوں کے لئے بریکنگ نیوز دیتی دکھائی دیں۔ اس سب کے باوجود سوہائے نے اداکاری کمال کی کی ہے۔
اب آئیے فلم کے مقصد کی جانب جو بے شک بڑا ہے لیکن بعض لوگوں کے لیے بہت برا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کا موٹر سائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا ہے یا یوں کہیے کہ آرام سے ہضم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مووی میں گلگت بلتستان کے باسیوں کے رہن سہن، روز مرہ زندگی اور ذہنی کشادگی کو خصوصی طور پر دکھایا گیا ہے۔
سینیئر صحافی مسعود رضا جب عطا آباد جھیل کا واقعہ کور کرکے آئے تھے تو ایسے بہت سے ۡقصے ساتھ لائے تھے۔ فلم کے دوران میں ساتھ بیٹھے دوست باقر کو بتا ہی رہا تھا کہ اس خطے میں خواتین بی اے اور ماسٹرز کرکے بھی کھیتی باری کرنے سے نہیں گھبراتیں کہ اچانک اس سے ملتا جلتا ڈائیلاگ سننے کو ملا۔ پاکستان کے لیے فخر کی بات ہے کہ یہ خطہ دیکھنے میں جتنا خوبصورت ہے اس کے لوگ اندر سے بھی اتنے ہی شاندار ہیں۔ فضاؤں اور ماحول کی طرح صاف و شفاف، ملنسار، غمگسار، مددگار اور مہمان نوازی کے لیے ہر دم تیار۔ بلند و بالا پہاڑوں سے مالامال جب ملک کا ایک علاقہ اخلاقیات کی بلندیوں کو چھو رہا ہے تو باقی حصے کیوں نہیں۔ کیوں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں خواتین ایسے کام نہیں کرسکتیں جنہیں معاشرے میں عام طور پر ان کے لیے غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔
زینتھ عرفان نے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے معاشرتی بیڑیوں کو توڑا اور وہ کیا جو انہوں نے چاہا۔ اب سوال یہ ہے کہ عدنان سرور نے ایک بامقصد فلم بھی بنالی، فلم لگ بھی گئی، بہت سوں نے دیکھ بھی لی، دیکھ کر تعریف بھی کردی۔ لیکن یہ پیغام اکیاون فیصد خواتین میں سے کتنوں تک پہنچا اور کتنوں نے اپنے پیروں میں بندھی معاشرتی زنجیروں کو توڑا۔ سوال یہ بھی ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور خود انحصاری جیسے مقصد کے لیے اگر بڑے پردے کا سہارا لیا جائے تو کیا کامیابی ملے گی؟ کیونکہ بہت سی باپردہ خواتین بڑے پردے پر فلم نہیں دیکھتیں۔