“سپانسرڈ سروے” دنیا بھر کی سیاست میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ہرمین اور چومسکی نے جو پراپیگنڈا ماڈل تیار کیا تھا اس میں “سپانسرڈ سروے” کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ پاکستانی سیاست میں بھی “سپانسرڈ سروے” کی تاریخ بہت طویل ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل فروری کے مہینے میں چند سروے سامنے آئے اور سب کے نتائج ایک دوسرے سے یکسر مختلف۔ ہیرالڈ جیسے معتبر ادارے نے اپنے سروے میں پیپلز پارٹی کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت قرار دیا جبکہ مسلم لیگ ن کو دوسرے اور پی ٹی آئی کو تیسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔ جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو ن لیگ پہلے، پی ٹی آئی دوسرے اور ہیرالڈ کی مقبول ترین جماعت پیپلز پارٹی ووٹس کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہی۔
گیلپ پاکستان نے بھی اسی ماہ کے اپنے سروے میں مسلم لیگ ن کو پہلے، پی پی کو دوسرے جبکہ تحریک انصاف کو تیسرے نمبر پر قرار دیا۔ گیلپ نے کے پی کے میں بھی مسلم لیگ ن کو مقبول ترین جماعت قرار دے دیا۔گیلپ کی نہ صرف کے پی کے متعلق پیشن گوئی مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی بلکہ انتخابات میں دھاندلی کے شکوک و شبہات کے باوجود مجموعی طور پر مسلم لیگ ن 41 فیصد کی پیشین گوئی کے برعکس صرف 29 فیصد ووٹ ہی لے سکی۔ پی ٹی آئی کی مجموعی کارکردگی بھی گیلپ رپورٹ سے مختلف رہی کیونکہ گیلپ کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت 14 فیصد تھی مگر الیکشن میں پی ٹی آئی نے 21 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
گیلپ نے ایک بار پھر سے 2018ء کے انتخابات کے تناظر میں اپنا سروے جاری کیا ہے۔ اس بار خیر سے گیلپ نے ہاتھ ذرا ہولا رکھتے ہوئے 41 فیصد کی بجائے مسلم لیگ ن کو صرف 34 فیصد مقبولیت عطا کی ہے۔ ان سروے نتائج سے ممکن ہے کہ عام آدمی کچھ وقت کے لئے کسی بھی جماعت کی مقبولیت پر یقین کر لے مگر سیاست کے طالبعلم یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت کا اندازہ ان سروے نتائج کی بجائے معاشرے کے معروضی حالات اور”معاشرتی پلس” کو محسوس کر کے بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی نے 2014ء میں جب ایک مشہور ٹی وی چینل کا بائیکاٹ کیا تو چینل نے اسے بالکل سنجیدہ نہیں لیا۔ اس ٹی وی چینل کے کرتا دھرتا کا مفروضہ یہ تھا کہ وہ کنگ میکر ہیں۔ ان کے سامنے پرویز مشرف ن اور آصف زرداری نہ ٹک سکے تو عمران خان کیا چیز ہے۔ دوسری طرف اسی چینل کے ایک گروپ کا مفروضہ یہ بھی تھا کہ پی ٹی آئی کی نسبت ن لیگ پبلک میں زیادہ مقبول ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے بائیکاٹ سے مسلم لیگی سپورٹرز مکمل طور پر وہ چینل دیکھنے لگ جائیں تو اس چینل کی چاندی ہو جائے گی۔ آج قریب تین سال بعد وقت نے ان تمام مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اس پرائیویٹ ٹی وی چینل کی ریٹنگ مسلسل گرتی گئی۔ ایک وقت میں 74 فیصد ریٹنگ انجوائے کرنے والا چینل اب صرف 20 فیصد کے قریب ریٹنگ حاصل کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بار بار درخواست کر کے بائیکاٹ ختم کروانا پڑا مگر گیلپ کے مطابق مقبول ترین جماعت اب بھی مسلم لیگ ن ہے۔
گیلپ سروے کے مطابق پی ٹی آئی کی پختونخوا میں مقبولیت بھی کم ہوئی ہے۔ میاں صاحب کے مطابق بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی بدنام ہو چکی ہے۔ اب کی بار ووٹر پی ٹی آئی کو سبق سکھا دے گا۔ دوسری طرف ن لیگ کا یہ بھی خیال ہے کہ لاہور جلسے میں لوگ لاہور نہیں بلکہ کے پی سے لائے گئے۔ یعنی کے پی میں پی ٹی آئی تو بدنام ہو چکی ہے غیر مقبول ہو چکی ہے مگر پھر بھی وہاں سے ہزاروں لوگ ہزاروں روپے خرچ کر کے کئی گھنٹوں کے سفر کی دشواریاں برداشت کر کے بھی لاہور جلسہ دیکھنے آئے۔
گیلپ سروے کی مقبول ترین جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو جب نااہل کیا گیا تھا تو انہوں نے “مجھے کیوں نکالا” کے نام سے ایک تین روزہ جی ٹی روڈ یاترا کی۔ اس عوامی یاترا میں عوام نے کس قدر دلچسپی دکھائی وہ تو تاریخ کا حصہ ہے۔ حکمران جماعت نے اس وقت بھی یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کہ نااہلی کے فیصلے نے میاں صاحب کو مزید مقبول کر دیا ہے۔ تین روزہ یاترا کے بعد جب میاں صاحب لاہور پہنچے تو اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس ایک بہترین موقع تھا کہ وہ مینار پاکستان پر میاں صاحب کا استقبالی کیمپ لگائیں۔ پورے ملک سے کارکنان کو بلا کر مینار پاکستان بھرنے کی تاریخ رقم کر دیں مگر میاں صاحب نے جلسے کے لئے مینار پاکستان کی بجائے داتا دربار کے سامنے والی سڑک کا انتخاب کیا۔ اس سڑک پر کتنے سےلوگ اکھٹے کئے جا سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بطور سیاسی طالبعلم میرا یہ سوال ہے کہ پاکستان کی تین دہائیوں سے مقبول ترین جماعت کبھی بھی مینار پاکستان پر جلسہ کیوں نہ کر سکی؟