کراچی: ناگن چورنگی کے قریب واقع محکمہ صحت کے ماتحت 10 کروڑ روپے میں چلنے والے سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کو 44 کروڑ روپے کے ساتھ ایک این جی او کو دے دیا۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں دیے جانے والے مذکورہ اسپتال کی کارکردگی پر صوبائی محکمہ صحت نے سوالات اٹھادیے اور اپنے شدید تحفظات کا بھی اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ نے بھی چلڈرن اسپتال کی کارکردگی بہتر نہ ہونے پر محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کرلی محکمہ صحت نے اپنی مرتب کی جانے والی رپورٹ میں اسپتال آنے والے بچوںکوغیرمعیاری ادویہ کی فراہمی، اسپتال کی حدود میں غیر متعلقہ افرادکی رہائش پرسخت اعتراضات کردیے جبکہ اسپتال میں صفائی وستھرائی کا انتظام نہ ہونے پر شدید برہمی کا ابھی اظہار کیا۔
محکمہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسپتال کی حدود میں 6 ایسے ملازمین بھی رہائش پذیرتھے جوکسی اورمحکمے میںکام کرتے تھے، محکمہ صحت کی رپورٹ میں این جی او سے چلڈرن اسپتال میں غیرضروری اعلیٰ عہدوں پر بھاری معاوضوں پر تعیناتیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اظہاربرہمی بھی کیا اور کہا ہے کہ اسپتال میں پہلی بارکوالٹی کنٹرول کی اسامی پر 2 لاکھ روپے ماہانہ کی تنخواہ کس مد میں اداکی جارہی ہے جبکہ اسپتال میں 25سے زائد غیرضروری انتظامی اسامیوں پرمن پسند افراد کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کرلیا گیا۔
سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کا 2003 میں سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے افتتاح کیا تھا جس کے بعد اسپتال محکمہ صحت کے ماتحت کردیاگیاتھا ،اسپتال 18 ایکٹر رقبے پرمحیط ہے،اس وقت اسپتال 50بستروں پرمشتمل تھا،جس کے بعد جاپان کی این جی اوجائیکا نے اسپتال میں پونے 2 ارب روپے کا توسیع بلاک اوراسپتال میں 50 کروڑ کے جدید آلات بھی فراہم کیے تھے ،توسیع منصوبے کے تحت اسپتال میں مزید 150بستروںکا اضافہ کرنا تھا جس کے بعد اسپتال میں بچوں کے علاج کیلیے 200 بستر مختص کرنا تھے تاہم پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما نے چلڈرن اسپتال کواپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے کے پی کے کی ایک این جو او کو دلوادیا۔
حیرت انگیز طورپراسپتال کا بجٹ 10 کروڑ سے 44 کروڑ اضافے کے ساتھ این جی اوکو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دیدیاگیا،اسپتال کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے سابق ڈائریکٹراحسن وزیر نے معاہدہ کیا تھا جن کومحکمہ صحت کے سیکریٹری نے عہدے سے ہٹادیا۔ مذکورہ اسپتال کا 30 ستمبر 2016 کو محکمہ صحت سے معاہدہ کیاگیاتھا اوراسپتال کو 15 دسمبر 2016 کوملی بھگت سے این جی اواسپتال کے حوالے کردیاگیا، 10ماہ میں بھی یہ این جی او اسپتال کو 2سو بستروںکااسپتال نہیں بنا سکی جس پر محکمہ صحت اورجاپانی این جی او جائیکا نے اپنے شدید تحفظات کااظہارکردیا اوراین جی او سے رپورٹ طلب کرلی۔
واضح رہے کہ این جی او نے اپنے من پسند افرادکوچیف ایگزیکٹو آفیسر اسپتال ساڑھے 4 لاکھ روپے، ڈائریکٹر آپریشن ڈھائی لاکھ روپے، اسپتال میں پہلی بارکوالٹی کنٹرول کی اسامی پر 2 لاکھ روپے، ایڈمنسٹریٹر ڈیڑھ لاکھ روپے، فنانس مینجر، پروکیورمنٹ مینجر، سپروائزر نائٹ اور ڈے، سپروائزر، ایچ آر مینجر، آئی ٹی عملہ ملا کر 25 سے اعلی عہدوں پربھاری معاوضوں پربھرتیاں کی گئیں جس کا علم محکمہ صحت کونہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بجٹ 44 کروڑ روپے میں سے ان اعلیٰ عہدوں پرفائزافسران کی تنخواہیں گزشتہ 10 ماہ سے دی جارہی ہیں،ان میں سے بیشتر افراد سندھ کے ڈومیسائل یافتہ نہیں جس کی وجہ سے شہریوں میں تحفظات بھی پائے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کی مرتب کی جانے والی رپورٹ کے مطابق جب یہ اسپتال محکمہ صحت کے ماتحت تھا تو اوپی ڈی ٹرن آؤٹ 5 ماہ میں ایک لاکھ 30 ہزار 268 تھی اورجب این جی اوکے پاس اسپتال دیاگیاتو5ماہ میں صرف 13ہزار زائد مریضوںکودیکھا گیا۔ محکمہ صحت نے اپنی رپورٹ اعتراضات کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال کی ایمبولینس سروس ایک سنگل بولان اور 2 ٹویوٹاہائی لیکس تھی موجودہ این جی او نے بولان ایمبولینس سے نام ہٹادیا اور اب ان کے ذاتی استعمال میں ہے اور 24 گھنٹے ایمبولینس سروسز فراہم نہیں کی جارہی،اسپتال ویسٹ مینجمنٹ کاکوئی وجود نہیں جبکہ اسپتال میں ریڈلوجی ایکسرے کی 24 گھنٹے سروسز بھی دستیاب نہیں ہیں۔