لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کی قومی انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد موجودہ حکومت نے جب قومی اہداف کا تعین کرتے ہوئے ابتدائی سو دن کا پلان عوام کے سامنے رکھا تو ہر طرف سے بے پناہ تنقید کا سامنا کرنا پڑاتھا۔اس امر کا اعتراف خود وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد
نامور سیاستدان اور کالم نگار ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔نے ابتدائی سو دن کی تکمیل کے موقع پر منعقدہ حالیہ تقریب سے بریفنگ میں کیا، انہوں نے کہا کہ جب ہم نے پہلی بارسو دن کا پلان دیا تو ہمارے دوستوں نے وارننگ دی کہ آپ اپنے لیے خود مشکلات کھڑی کر رہے ہیں، بقول ارباب شہزادہمیں اسکا بخوبی اندازہ تھا لیکن ہمارے لیے ترقی کی بنیاد رکھنا اور اپنے لیے درست سمت کا انتخاب کرنا سیاسی نمبر بنانے سے زیادہ اہم ہے کیونکہ درست سمت میں جانے کیلئے صحیح بنیاد خود کو مشکل میں ڈالے بغیر نہیں رکھی جاسکتی، میں بھی اس تقریب میں موجود تھا جب وزیراعظم عمران خان نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت کی سمت درست ہے اور ہم عوام سے کیے گئے وعدے ضرور پورے کریں گے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سمجھدار ملک ترقی و خوشحالی کے حصول کیلئے اپنے اہداف کا تعین کرتا ہے۔ہماری قومی تاریخ میں سابقہ حکومتوں نے بلند و بانگ دعویٰ ضرور کیے لیکن عملدرآمد کیلئے واضح اہداف مقرر نہیں کئے۔مجھے خوشی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے نہ صرف اپنے ابتدائی سو دن کا پلان دیا بلکہ سو دن گزرجانے کے بعد عوام کے سامنے اپنی کارکردگی بھی پیش کی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے، جہاں ایک طرف اپوزیشن کوحکومت کی نیک نیتی کو سراہنا چاہیے، وہیں بطور وزیراعظم عمران خان کو جائزہ لینا چاہیے کہ سو دن کے اہداف کے حصول میںانہیں کونسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ،کونسی چیزیں غلط ہوئی اور کونسی صحیح، انکا پتا لگانا بہت ضروری ہے تاکہ اگلے سو دن ان پر قابو پاکر کارکردگی مزید بہتر کی جاسکے۔میں اپنے مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں بھی برملا کہتا آیا ہوں کہ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، ابھی یہ سو دن گزرے ہیں، بہت جلد اگلے سو دن بلکہ پانچ سال بھی گزر جائیں گے اور ہم ایک بار پھر عوام کے پاس ہونگے، اس موقع پر صرف اور صرف ہماری کارگزاری ہی ہمارے کام آسکے گی، اسلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بناء کسی تعصب اور وابستگی کے آزادانہ طور پر انفرادی اور حکومتی سطح پر اپنا تنقیدی جائزہ لیں، ہمیں اس حقیقت سے انکاری نہیں ہونا چاہیے کہ تعمیری و اصلاحی تنقید کا سامنا کارکردگی میں بہتری لانے کا باعث بنتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آج میڈیا نے عوام کو اتنا سیاسی شعور دیدیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے سیاسی جھانسے میں آنے کو تیار نہیں
لیکن ہمیں بھی نیک نیتی سے ان تمام وجوہات کا پتا لگانے کی ضرورت ہے جسکی بناء پر ہم ترقی کے سفر میں اپنی رفتار برقرار نہ رکھ سکے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کی ترجیحات میں معیشت کی بحالی، قانون کی بالادستی اور کرپشن پر قابو پانا سرفہرست ہے۔ معیشت کے استحکام کیلئے موجودہ حکومت کیلئے سب سے آسان آپشن تھا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہوئے پاکستان کو مزید قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔چین، سعودی عرب ، یو اے ای اور ملائشیا جیسے دیرینہ دوست ممالک کے ساتھ قریبی روابط کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا، آج یہ حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی کا اثر ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بے بنیاد الزامات کا موثر جواب دیا گیا ہے، کرتارپور راہداری کا قیام ہمسایہ ملک انڈیا میں بسنے والے گورو نانک نام لیواؤں کیلئے گزشتہ ستر برسوں سے ایک خواب ہی تھا، بیس سال قبل آنجہانی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر زیربحث ضرور لایا گیا لیکن پیش رفت نہ ہوسکی، آج موجودہ دور حکومت میں کرتارپور راہداری کا قیام درحقیقت ایک ایسا کارنامہ ہے جس نے پاکستان کا امیج دنیا کے سامنے بطور امن دوست ملک کے پیش کیا ہے،
اس حوالے سے عالمی میڈیا نے پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو سراہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم تھوڑی اور تیاری کرلیتے تو یہ ایونٹ بھارتی قیادت سے کوآرڈینیشن کی بدولت مزید موثر ثابت ہوسکتا تھا جس میں سفراء کرام کی کثیر تعداد کو بھی مدعو کیا جاتا، مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی جب وزیراعظم صاحب نے انڈین وفد سے ماضی میں نہ رہنے کی بات کرتے ہوئے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی کی دقیانوسی پالیسیوں کو خیرباد کہتے ہوئے ایسی ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنائیں جس سے نہ صرف دوسرے ممالک کے شہری پاکستان کا رخ کرسکیں بلکہ پاکستانیوں کیلئے بھی بیرونی دنیا کے بند دروازے کھل جائیں۔میری نظر میں استحکام معیشت کیلئے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری کا اہم معاملہ فوری توجہ کا طالب ہے کیونکہ ڈالر کی اونچی اڑان نے ہر شعبہ زندگی کی اشیاء کی قیمت کوشدید متاثر کیا ہے،میں مانتا ہوں کہ اگر ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی تو اسکا وہی منفی نتیجہ نکلے گا جو سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی بناء پر ہمارے سامنے ہے لیکن ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ
ہم ملکی قرضوں میں اضافے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے میں خاطر خواہ کردارادا نہیں کرسکے جو ڈالر کی قدر بڑھنے سے کرسکتے تھے۔ اس حوالے سے میں اپنی تجویز دہرانا چاہوں گا کہ اگلے سو دن میں ہمیں چین، ملائشیا جیسی تجارتی طاقتوں کی اقتصادی پالیسیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں مقامی کرنسی میں تجارت کے حجم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا چاہیے۔موجودہ حکومت کی کفاعت شعاری پالیسی کے تحت قومی خزانے میں ریکارڈ بچت بھی ایک قابل تحسین اقدام ہے، امید کی جانی چاہیے کہ یہ پیسا اب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ابتدائی سو دنوں میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے بیرون ممالک چھپائی گئی 11 ارب ڈالرز کی جائیدادوں کا سراغ بھی لگایا گیا اور سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔ موجودہ اپوزیشن پارلیمانی تاریخ کی سب سے زیادہ تجربہ کار اورمضبوط اپوزیشن سمجھی جاتی ہے، ایک لحاظ سے یہ پی ٹی آئی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ ابھی تک اپوزیشن حکومت کیلئے کسی قسم کے سنجیدہ مسائل کھڑے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ احتساب جمہوری معاشرے کیلئے لازم سمجھا جاتا ہے، موجودہ دورحکومت میں نیب سمیت تحقیقاتی اداروں کے آزادانہ انداز میں کام سے احتسابی عمل کو تقویت ملی ہے۔
میں روزاول سے یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہوں کہ پی ٹی آئی کیلئے عوام کے ووٹوں کی طاقت سے حکومت بنانے سے زیادہ مشکل مرحلہ عوام کی نظروں میں حکومت کا اعتماد بحال رکھنا ہے، عوام اپنے منتخب کردہ نمائندے پارلیمان میں قانون سازی کیلئے بھیجتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن کی جانب سے موجودہ قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹیوں کے قیام اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کی تعنیاتی پر اصرار نے پارلیمانی عمل کو تعطل کا شکار کیا، اس حوالے سے میرا دونوں اطراف کومخلصانہ مشورہ ہے کہ عوام کی بہتری کی خاطر لچک کا مظاہرہ کیا جائے۔قانون کی بالادستی کی بات کی جائے تو ماضی کی وہ طاقتور قوتیں جو احتجاج کے نام پرمسلسل سڑکیں بند کرکے عوام کیلئے مسائل پیدا کرتی تھیں، انہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کامیابی سے قانون کے آہنی شکنجے میں جکڑا گیا، اس مثبت اقدام نے معاشرے میں پنپتی ہوئی شدت پسندی کے اثر کو زائل کرتے ہوئے برداشت، تحمل اور رواداری پر مبنی معاشرے کے قیام کا راستہ بھی ہموار کیا۔عوام کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نئے پاکستان میں مدینہ ماڈل کو اپنانے کی بات ضرور کرتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا، عمران خان کو بطور وزیراعظم پاکستان کی سمت درست رکھنے کیلئے درست ٹیم پر بھروسہ کرنا ہوگاجسکی اہلیت کا معیار ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ قابلیت اور اہلیت بھی ہونا چاہیے۔ مجھے امیدہے کہ وزیراعظم صاحب اگلے سو دنوں میںپاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ملک گیر اصلاحات متعارف کروائیں گے جسکے مثبت ثمرات سے تمام عوام مستفید ہو سکیں گے۔