ہمارے ملک کے اہم مسائل پر ہماری عدلیہ بے لاگ ریمارکس دیتی رہتی ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ہمارے قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہر طرف افراتفری اور اقربا پروری نظر آتی ہے، بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔کوئٹہ میں وکلا پر خودکش حملے کی تحقیقات کرنے والے قائم جوڈیشل کمیشن کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے ناکام رہی ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابہام ہے، قیادت کا فقدان ہے، سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے قومی اداروں کو تباہ کردیا ہے۔
رپورٹ میں وفاقی وزارت داخلہ پر تنقید کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک مبہم جنگ لڑی جا رہی ہے، وزارت کے افسران عوام کی خدمت کے بجائے سرکاری خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر اور اسپتال کے باہر خودکش حملے میں ایک ہی گروپ ملوث تھا، جب تک کمیشن نے مداخلت نہیں کی، خودکش بمبار کی شناخت نہیں ہوسکی۔
سانحہ کوئٹہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی ایک بدترین مثال ہے، اس سانحے کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے تحقیقات کے بعد 110 صفحات پر مشتمل جو رپورٹ شایع کی ہے، وہ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ حکمرانوں پر ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کے تناظر ہی میں دہشت گردی کے عفریت کو دیکھا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقربا پروری کی وجہ ادارے میں نا اہل افراد بھرتی کیے گئے ہیں، اس کی واضح مثال 4 سیکریٹریوں کی تقرری ہے جن میں ایک صوبائی سیکریٹری صحت بھی شامل ہے جو ایک وفاقی وزیر کا بھائی ہے۔ کمیشن نے قراردیا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اداروں میں ڈسپلن ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایف سی سول انتظامیہ کی اپیل کا جواب نہیں دیتی، ایف سی پولیسنگ کا کیا کردار ہے اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ ابھی تک نیشنل سیکیورٹی انٹرنل پالیسی پر عمل نہیں ہوا۔
نیشنل ایکشن پلان ایک بے معنی اور بے سمت پلان ہے جس کے مقاصد کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار ہے نہ ہی اس پر عمل ہوا ہے۔ پلان کا اطلاق کس کو کرنا ہے؟ اس بارے میں کوئی تحریری اسٹریٹجی نہیں ہے۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ابھی تک کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں، ان کے سربراہوں کے بیانات شایع اور نشر ہو رہے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں، قانون کے مطابق اب تک نہ کالعدم تنظیموں کے خلاف اب تک پابندیاں عاید کی گئیں نہ نیکٹا ایکٹ پر عمل در آمد ہوا۔ مدارس کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں انسداد دہشت گردی اور نیکٹا ایکٹ پر عمل درآمد، تمام کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی اور ان سے وابستہ افراد کے خلاف مقدمات کے اندراج، کالعدم تنظیموں کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا کرنے، دہشت گردی میں ملوث اور مشکوک افراد کا ڈیٹا بینک بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ پر وزراء نے غلط بیانی کی۔ کمیشن نے دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے بیانات اور موقف نشر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کی سفارش کی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے اس معاملے کی سیکیورٹی حساسیت کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی گزارش کی لیکن کمیشن کے سربراہ نے اس استدعا کو مسترد کرتے ہوئے رپورٹ تمام فریقوں کو مہیا کرنے کی ہدایت کی۔ تحقیقاتی کمیشن نے کہاکہ جنداﷲ کو دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے کے باوجود کالعدم قرار نہیں دیا گیا، ایک وفاقی وزیر کا کالعدم تنظیم کے اسلام آباد کے جلسے کو حرج نہ سمجھنا ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ہم نے اس تحقیقاتی کمیشن کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے اقتباسات یہاں اسی لیے پیش کیے ہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ نہ صرف ہماری سلامتی کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق ملک کے مستقبل سے ہے۔ ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قیادت نے اس حوالے سے ملک کے مستقبل کے حوالے سے دو ٹوک پالیسی وضع نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ملک کے مستقل کے حوالے سے سخت ابہام کا شکار ہیں۔
جناح صاحب کی اس حوالے سے کی جانے والی تقاریر کو مختلف حلقے اپنے اپنے نظریات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ان کی تاویل بھی اپنے اپنے نظریات کے حوالے ہی سے کرتے ہیں۔ اس ابہام اور رد عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مستقبل کا کوئی واضح نظریاتی منصوبہ نہیں ہے، صرف پاکستان کا مطلب کیا کے مبہم نعرے کو ملک کا نظریاتی منشور بنالیاگیا ہے کیونکہ یہ مقصد فکر، مذہب کو ہمیشہ اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے لہٰذا حق اور ملک کے روشن مستقبل کے خواہاں حلقوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے دنیا میں وہی ملک ترقی کررہے ہیں جو سائنس ٹیکنالوجی تحقیق اور ایجاد کے راستے پر چل رہے ہیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے زیادہ مہذب قوم ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمیں دنیا کی سربراہی کا حق ہے ہماری خواہش ہے کہ ساری دنیا ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ یہ دعوے، یہ خواہشیں قابل احترام ہیں لیکن یہ دعوے یہ خواہشیں اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک ہم ماضی میں زندہ رہنے کے کلچر کو خیر باد کہہ کر جدید علوم سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق اور ایجادات کے شعبوں میں جدید دنیا کے قدم سے قدم ملاکر نہیں چلتے اور آنے والی نسلوں کو جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی، تحقیق اور ایجادات کے شعبوں میں آگے بڑھنے کی ترغیب نہیں فراہم کرتے۔