میرا ضلع وہاڑی کے ایک گاوں جانا ہوا۔ ایک گلی میں چند افراد صف پر بیٹھے تھے۔ فاتحہ خوانی کے لیے ہم بھی جا بیٹھے۔ علم ہوا کہ جس کی ہم نے فاتحہ خوانی کی ہے اس نے اپنے دو بچوں کو چھری سے ذبحہ کر کے قتل کیا اور بعد ازاں خود کشی کر لی۔اس نے ایسا کیوں کیا ؟ کیسا ظالم باپ تھا؟ کیا اسے رحم نا آیا؟ مزید سوال و جواب میں ایک دل دہلا دینے والی کہانی کا علم ہوا ۔ ”خ” کی شادی پنی ماموں زاد (ت) نامی عورت سے ہوئی۔عام سی گھریلو لڑائی میں اس کی بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی۔اس نے میکے جا کر مقدمہ کر دیا کہ ”بچے ماں کے حوالے کیے جائی” باپ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا۔اور اس بات کو بھی جانتا تھا کہ اس سے بدلہ لینے کے لیے ،اسے تنگ کرنے کے لیے اس کی بیوی نے اس پر کیس کیا ہے۔ اس نے دو چار وکلا سے مشورہ کیا۔وہ ماں بچوں کی کیسے حق دار ہے جو بچوں کو بلا وجہ چھوڑ جائے ، وہ ماں جس نے” اپنی ماں کے کہنے پر،یااپنے بھائی کی ناک کی خاطر” خاوند کو صرف ذلیل کرنے کے لیے مقدمہ کیا ہو( اس خاوند پر جس بارے میں اللہ کے رسول ۖ کا فرمان ہے کہ اگر سجدہ جائز ہوتا تو بیوی خاوند کو کرتی )کیا عدالت سچائی کو نہیں دیکھتی ؟ کیا وہ تحقیق نہیں کرتی؟کیا عدالت اندھے فیصلے کرتی ہے؟کیا سب مائیں بچوں سے پیار کرتی ہیں ؟کیا ماں ڈائن نہیں ہو سکتی؟کیا ماں بچوں کو اپنی ضد کی سولی نہیں چڑھا سکتی ؟وہ پوچھتا رہا اسے جواب ملا” یہ قانون ہے ۔ سات سال تک بچے ماں کے پاس ہی رہیں گے ۔اس کے بعد فیصلہ بچے کرتے ہیں” ۔اس نے پوچھا ۔جو بچے سات سال ماں کے پاس رہیں جن بچوں کو باپ سے صرف دو گھنٹے کے لیے ملوایا جائے وہ کیسے باپ کا انتخاب کریں گے؟۔ماں انہیں باپ کے خلاف کر دے گئی؟ ۔قانون برابر ہونا چاہئے ؟دونوں کو برابر حق ملنا چاہئے ۔ اسے بتایا گیا کہ”یہ قانون ہے وہ کیا کر سکتے ہیں ۔”وہ سچا ہو کر بھی بچے حاصل نہیں کر سکتا۔وہ مایوس ہوتا چلاگیا ۔امید زندگی ہے اور مایوسی موت ۔اس نے موت کو گلے لگا لیا ۔اس نے بچوں کو ذبحہ کیا اور خود کشی کر لی ۔اس شام وہ بچوں کو وہاں مقیم سب رشتے داروں کے گھر ملوانے لے کر گیا تھا ۔اور ہرجگہ کہتا رہا ”میں بچے تو ان کی پتھر دل ماں کو نہیں دوں گا ۔میںوہاں بچوں کو لے جاوں گا جہاں باپ سے نا انصافی کا قانون پہنچ نہیں سکے گا۔
وہاں موجود ایک آدمی نے کہا” اسے اپنی بیوی کو پہلے قتل کرنا چاہئے تھا۔جس پر تڑپتے ،سسکتے بچوں کی آہوں کا اثر نہیں ہوا ،یہ کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ایک عمر رسیدہ آدمی کہنے لگا ،ان بچوں کا قاتل ظالمانہ ،یک طرفہ ،نا انصافی کا قانون ہے ۔اس ان پڑھ آدمی کی بات دل کو لگی ۔ اس کے بعد چند دن ہم نے عدالت میں گزارے وہاں فیملی کورٹ کے چکر لگائے ،میاں اور بیوی ان کے دیگر رشتے داروں کے انٹرویوز کیے ۔کئی ایک کیس سننے کا بھی اتفاق ہوا ،وکلا سے ملا ۔اخبارات میں ایسے کیسوں کے احوال پڑھے اور اس بوڑھے آدمی کی بات کے مزید قائل ہو گئے۔
گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء کو بنایا گیا۔ایک سو ستائیس سال گزر گئے ۔اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکی ۔عدالتوں میں خطرناک حد تک کیسز بڑھنے کی بنیادی وجہ اس قانون کا یک طرفہ ہی نہیں مکمل طور پر نا انصافی پر مبنی ہونا ہے ۔اس ایکٹ کا سہارا ہونے کی وجہ سے پہلے مائیں معمولی بات پر میکے جا بیٹھتی ہیں اور بعد ازاں بچوں کے حصول کا کیس کر دیتی ہیں ۔جس سے میاں بیوی میں مزید دوری پیدا ہو جاتی ہے ۔مزید بات کرنے سے قبل ایک اخبار میں درج اس کیس کو پڑھیں ۔اور بتائیں ماں کو مان جانا ہئے تھا یا نہیں ۔ناذیہ کاکہنا تھا کہ اس کا خاوند تشدد کرتا ہے ۔اور خرچہ نہیں دیتا ۔شہباز کا کہنا تھا کہ یہ خود ہی روٹھ کر بچوں کو چھوڑ کر میکے گئی ہے ۔اس نے مجھے گالیاں دیں تھیں تب میں نے اسے مارا تھا یہ تو بڑی پرانی بات ہے اس کے بعد دو بچے پیدا ہو ئے۔یہ پتھر دل عورت ہے ۔ہائیکورٹ کے جسٹس نے والدین کی علیحدگی کے بعد پانچ بچوں کی حوالگی سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے بچے ماں کے حوالے کردئیے ۔ بچوں کی چیخ و پکار نے رقت آمیز منظر پیدا کر دیا اور احاطہ عدالت میں موجود ہر شخص پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ کہتا نظر آیا کہ بچوں کی خاطر ماں کو صلح کیلئے مان جانا چاہئے ۔ بچوں کے باپ شہبازنے بھی روتے ہوئے کہا کہ مجھے بچے نہ ملے تو مر جائوں گا۔ بچوں کا باپ اپنی بیوی ناذیہ کی منتیں کرتا رہا کہ بچوں کی خاطر مان جائو وہ اس کا ہر مطالبہ ماننے کیلئے تیار ہے ۔مگر بچوں کی والدہ عذرا نے صاف انکار کر دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ایسی عورت بچوں کی حق دار کیسے ہو سکتی ہے؟ ۔ عدالت میں علیحدگی فیصلے , آسمان کا سینہ چیرتی معصوم بچوں کی چیخیں پتھر دل ماں،باپ اور میاں بیوی کے وہ سب رشتے دار جنہوں نے ان کی صلح کروانے کی کوشش نہیں کی ۔اور یہ ناانصافی پر مبنی قانون،اور جج کا لیکر کے فقیر ہونے کی بدولت کوئی بچہ ماں کی ممتا تو کوئی باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتا ہے۔
کئی بچے والدین کے پیار کے علاوہ بہن بھائیوں کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔کہ عدالت بچوں کو بانٹ دیتی ہے ۔گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ ہی سارے مسائل کی جڑ ہے جس کی وجہ سے علیحدگی کے بعد ایک فریق کو بچے سے ملاقات کے لئے پو را مہینہ دے دیا جا تا ہے جبکہ دوسرے کو صرف 2گھنٹے ملتے ہیں ۔ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد بچے کا99.7 فیصد وقت صرف ایک فریق کو دے دیا جا تا ہے حالانکہ یہ وقت 50،50فیصد برابری کی شرح پر دیا جانا چاہیے.عام طور پر بچے والدہ کے حوالے ہی کر دیے جاتے ہیں ۔جج صاحبان زیادہ تفشیش نہیں کرتے ،مصالحت کی بھی زیادہ کوشش نہیں کرتے ،لیکن سب جج ایسے نہیں ہوتے ۔کچھ جج معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر انصاف پر مبنی فیصلہ بھی کرتے ہیں ۔مثلا اس فیصلے کو دیکھیں ۔لاہور( 21 فروری2017ئ) لاہو رہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سردار احمد نعیم نے پانچ بچوں کو باپ سے لے کر ماں کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی اور بچوں کو باپ کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ عدالت میں شاہدرہ کی رہائش ناہید رمضان نے درخواست دائر کی کہ اس کے شوہر نے علیحدگی کے بعد بچوں کو زبردستی اپنے ہمراہ رکھا ہے عدالت بازیاب کرواکر اس کے حوالے کرے۔
عدالت میں درخواست گزار کے شوہر نے بچوں کو عدالت میں پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ وہ بچوں کی بہتر پرورش کررہا ہے عدالت نے بچوں کو باپ کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہوئے ناہید رمضان کی درخواست مسترد کردی۔(ایم خالد)۔ میاں بیوی کے نزاع کی صورت میں عدالت کو بچوں کی بہتری کو پیش نظر رکھنے کے علاوہ ،اصل اسباب و واقعات کو جان کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ بچے کس کے پاس رہیں ۔قصور کس کاہے؟ میاں کا یا بیوی کا؟اور خاص بات کہ بچوں کی پرورش کہاں بہتر ہوسکتی ہے جہاں بچے نفسیاتی مریض نہ بن سکیں ۔دین اسلام پر عمل کس گھر میں زیادہ ہے ۔کس گھر کو خاندان کے دیگر افراد زیادہ پسند کرتے ہیں ۔میاں اور بیوی کے چچا ،ماموں،خالہ ،پھوپھیوں کو بلا کر ان کے بارے میں پوچھا جانا چاہئے کہ قصور کس کا ہے ؟۔
اگر آپ اس چیز کا بغور جائزہ لیں تو جن گھروں میں دینی تعلیمات دی جاتی ہے ۔وہاں ایسے واقعات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔میرے خیال میں میاں بیوی کے رشتے میں دراڑ اْس وقت آتی ہے جب غلط فہمی پیدا ہوتی ہے ۔ اور اْن غلط فہمیوں کودور کرنے کی بجائے لڑکی یا لڑکے قریبی رشتے دار انتہائی منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور جب عورتیں جذباتی ہو جائیںضد پر اتر آئیں،قرآن و حدیث ۖ کو بھی نہ مانیں تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔
اس کالم کے ذریعے میری محترم جج صاحبان سے ،وکلا اور خاص کر صحافی بھائیوں اور دیگر قانون ساز اداروں سے اپیل ہے کہ باپ سے نا انصافی کے اس 127 سالہ قانون میں مناسب تبدیلیاں کروانے کے لیے جہدوجہد کریں ۔تاکہ باپ کو صرف پیسے کمانے کی مشین نہ سمجھا جائے اسے بھی اپنے بچوں کے پاس رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک ماں کو اس قانون میں ترمیم سے پچاس فیصد کیسوں کی تعداد ویسے ہی کم ہو جائے گئی۔