”13 رجب تاریخ انسانی کے عظیم سپہ سالار فاتح خیبر، باب العلم، داماد رسول (ص) امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا دن ہے،’ ” فرمان رسول (ص) ھے ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ ”،علامہ محسن علی نقوی، علامہ خورشید جوادی ‘ذاکر اھلیبت ساجد محمود
راولپنڈی: (اصغر علی مبارک) یوم آمد حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے زیر انتظام خانوادہ شہید تحفظ عزاداری شہید مظہر علی مبارک براۓ ایصال ثواب مرحوم والدین محترم ڈاکٹر مبارک علی، و سید خد حسین گردیزی و سید عجائب علی گردیزی مجلس فضائل و عزا مسجد شاہ چن چراغ راولپنڈی میں برپا ہوئی جس سے مقررین علامہ خورشید حیدر جوادی آف ہری پور ،علامہ محسن علی نقوی اور ساجد محمود ذاکر اھلیبت نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں جشن یوم آمد حضرت علی (ع) ابن ابی طالب (ع) کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 13 رجب تاریخ انسانی کے عظیم سپہ سالار فاتح خیبر، باب العلم، داماد رسول (ص) امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا دن ہے۔ فاتح خیبر حیدر کرار شیرِ خدا کو کوفہ کی مسجد میں 19 رمضان المبارک کو نماز کی حالت میں زخمی کیا گیا اور آپ 21 رمضان کو شہید ہو گئے۔ سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے بعد حکم خدا وندی سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور ولی مقرر کرنے کا اعلان فرمایا۔ غدیر خم میں خاتم النبیین حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانی ’’مولا‘‘ ہونے کی سند ملی۔ حضرت علی علیہ السلام رجب کی تیرہ تاریخ کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابو طالب (ع) اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں خاتم النبیین حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔
حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی بہت عزت کرتے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب علی بن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« کبھی یہ کہا کہ »میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ “کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا» علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ کبھی یہ کہا» علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔ کبھی یہ کہ» وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں، یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا و آخرت میں بھائی قرار دیا اور غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا حضرت علی علیہ السلام بھی مولا ہیں۔ان کے خطبوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جو اسلامی، ادبی، علمی، تاریخی، اخلاقی، سیاسی، الہی مضامین پر مشتمل ہے ایسا کلام کسی دیگر بشر سے نہیں سنا گیاآپ بحکم خدا رسول خداؐ کے بلا فصل جانشین ہیں جس کا اعلان پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔ قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ شب ہجرت رسول خدا کے بستر پر سو کر حضور کو قریش کی گزند سے آپ نے بچایا۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوئی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ آپ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار تھے