counter easy hit

1400 سال پہلے خُلفاۓ راشدین کے باب سے ایک ایمان افروز تحریر

بابا جی کہتے ہیں کہ… “پُتری…!! تاریخ بتاتی ہے کہ 1400 سال پہلے ایک حکمران گزرا ہے… جو خُلفاۓ راشدین کی فہرست میں دوسرے نمبر پر مسلمانوں کا خلیفہ بنا… انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا حکمران گزرا ہو گا، جس کی حکومت انسانوں پر تھی، زمین پر تھی، ہواؤں پر تھی، یہاں تک کہ پانیوں پر تھی… 22 لاکھ مربع میل یعنی کہ آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے “حضرت عمر فاروق بن الخطاب (رض)” نے اپنی رعایا پر ایسا عدل اور انصاف کیا کہ دجلہ کے کنارے پیاسے کُتے کی بھی فکر کی… راتوں کو گَشت کر کر کے رعایا کے مسائل اور پریشانیاں سُلجھائی… مسلم اور غیر مسلم کے حقوق کا برابر انصاف کے ساتھ خیال رکھا… اور ایسی حکومت کی کہ ایک غیر مسلم مفقر کا کہنا تھا، کہ اگر مسلمانوں میں ایک اور عمر بن الخطاب ہوتا، تو دنیا پر حکومت اسلام کی ہوتی… مصر سے خط آتا ہے کہ دریائے نیل اپنی روانی کے ساتھ بہتا نہیں ہے، جب تک کہ کسی نوجوان لڑکی کو زیورات سے سجا کر دریائے نیل میں قربان نہ کیا جاۓ، اور یہ روایت برسوں سے قائم ہے… عمر بن خطاب (رض) یہ خط پڑھتے ہیں اور جواب میں لکھتے ہیں کہ… “بسم اللہ الرحمن الرحیم… اے نیل…!! اگر تُو اللّٰہ کے حکم سے بہتا ہے، تو بہنا شروع کر… ورنہ تیری کوئی ضرورت نہیں…” قاصد کو وہ خط دیا اور فرمایا کہ یہ خط دریائے نیل میں ڈال دو… اور جب وہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا بہنے لگا، اور ایسا بہا کہ آج تک نہیں رُکا… عراق کا گورنر حضرت عمر بن خطاب (رض) سے ملاقات کیلیۓ مدینہ جاتا ہے… رسول(ص) کی سنت کے مطابق، حضرت عمر بن خطاب کا دربار بھی مسجد نبوی میں لگا کرتا تھا… گورنر مسجد پہنچتا ہے تو پتا چلا کہ عمر(رض) بکریاں چرانے گئے ہیں… گورنر اس سمت میں چل پڑا اور کچھ دور جا کر دیکھتا ہے، کہ بکریوں کا ایک ریوڑ چر رہا ہے، اور قریب ہی ایک شخص پتھر پر سَر رکھ کر سو رہا ہے… گورنر نے کہا کہ “اے عمر…!! تُو نے اللّٰہ کی زمین پر انصاف کیا ہے، تجھے پتھر پر بھی نیند آ جاتی ہے…”بابا جی مزید کہتے ہیں کہ… “پُتری…!! تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ 1300 سال پہلے ایک اور حکمران گزرا… جو کہ عمر فاروق بن الخطاب (رض) کی ہی آل سے تھا… اس شخص نے بھی مسلمانوں کی خلافت کی… اور ایسا خلیفہ بنا کہ تاریخ میں ان جیسی حکومت بھی کسی کی نہیں ملتی… 3 برِاعظم پر حکومت ہے… اور صرف 2 سال اور 2 مہینہ کے مختصر عرصہ میں، ایسی حکومت کی، کہ 3 برِ اعظم میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ بچا… بھیک مانگنے والا کوئی نہ بچا… قرض دار کوئی نہ بچا… نہ کوئی مسلم اور نہ ہی کوئی غیر مسلم… زکوٰۃ کا مال آتا تو فرماتے کہ غریبوں میں تقسیم کر دو… پتا چلتا کہ غریب کوئی نہیں ہے… فرماتے کہ اسلامی لشکر تیار کراؤ… پتا چلتا کہ اسلامی لشکر پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں… فرماتے کہ نوجوانوں کی شادیاں کروا دو… پتا چلتا کہ شادی کے خواہشمند لوگوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے… فرماتے کہ اگر کسی کے ذمہ قرض ہے تو وہ قرض ادا کر دو… پتا چلتا کہ رعایا کی قرض ادائیگی کے بعد بھی مال بچ گیا ہے … فرماتے کہ جاؤ اور دیکھو، یہودی اور عیسائیوں میں سے کسی پر قرض ہے، تو وہ بھی ادا کر دو… پتا چلتا کہ غیر مسلموں کی قرض ادائیگی کے بعد بھی مال باقی ہے.. فرماتے کہ اہلِ علم کو مال دے دیا جائے… پتا چلتا کہ پھر بھی مال بچ گیا ہے… پھر فرماتے کہ اس کی گندم خرید کر پہاڑوں پر ڈال دو… کہ مسلم سلطنت میں کوئی پرندہ بھی بھوکا نہ رہے… اور اپنے حالات کیسے تھے…؟؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے 12 بچے اور بچیاں تھے… عید کا موقع آتا ہے… بچہ والدہ سے نئے کپڑوں کی فرمائش کرتے ہیں… والدہ حضرت فاطمہ بنتِ عبدالملک (جو کہ 7 نسبتوں سے شہزادی ہیں… انسانی تاریخ میں سیاسی لحاظ سے، اتنا بلند مقام کسی عورت کا نہیں)… جب حضرت عمر بن عبدالعزیز گھر تشریف لاۓ تو حضرت فاطمہ نے بچوں کی خواہش کا ذکر کیا، تو عمر بن عبدالعزیز فرمانے لگے کہ “فاطمہ… میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں… نئے کپڑے کہاں سے دِلاؤں…؟؟” قصۂ مختصر… 3 برِاعظم میں کوئی بھیک مانگنے والا نہ بچا… مگر 3 برِاعظم کے بادشاہ کے پاس اتنے پیسے نہیں، کہ اولاد کو عید پر کپڑے دِلا سکے… ایک دن گھر تشریف لاتے ہیں تو بچیاں بات کرتے وقت منہ کو دوپٹوں سے ڈھانپ رہی ہیں… عمر بن عبدالعزیز حیران ہوۓ اور منہ ڈھانپنے کی وجہ پوچھی تو کسی نے جواب نہ دیا… اتنے میں ان کی ایک کنیز رو پڑی… اور کہنے لگی کہ “امیرالمومنین… آج آپ کی بچیوں نے کچے پیاز کے ساتھ روٹی کھائی ہے… اسلیۓ منہ ڈھانپ رہی ہیں کہ کہیں آپ کو پیاز کی بُو نہ آجائے…”اور ہمارا تو مزدور بھی کوئی چَٹنی، لَسّی تیار کر لیتا ہے… مگر اُس باپ کی کیا کیفیت رہی ہو گی، جس کے پاس 3 برِاعظم کی حکومت ہے، آدھی دنیا کے خزانوں کا مالک ہے، خیانت کر کے اولاد کو عید کے کپڑے بھی دلا سکتا ہے، اور اچھے کھانے بھی کھلا سکتا ہے، مگر اللّٰہ کو خوش کرنے کیلیۓ، اپنی اولاد کی خواہشات تک کو قربان کر جاۓ… کوئی اندازہ نہیں کر سکتا اس باپ کی کیفیت کا…بابا جی کہتے ہیں کہ…پُتری…!! تاریخ نے ایسا کوئی” عمر” پھر نہ دیکھا… نہ عمر بن الخطاب جیسا، نہ ہی عمر بن عبدالعزیز جیسا…کیسی حکومت تھی وہ…؟؟مدینہ میں بیٹھ دریائے نیل کے نام خط لکھا جاتا ہے جو کہ مصر میں ہے، اور دریا بھی اپنے حاکم کا حکم مانتا ہے… کہاں مدینہ اور کہاں مصر، کہاں عمر بن الخطاب اور کہاں بےجان دریا…ساری سائنس، سارے فلسفے، ساری عقل دھری کی دھری رہ جاتی ہے… مگر اس کے باوجود، آج 1400 سال بعد، میں اُس حکومت پر یقین رکھتا ہوں، بلکہ بِن دیکھے اُس حکومت کی گواہی بھی دے رہا ہوں جو آپ پڑھ رہے ہیں…کسی فقیر نے یوں ہی تو نہیں ہارون الرشید سے کہا تھا، یہ بِن دیکھے سودے ہیں، جو کہتا ہے، وہ سمجھتا نہیں، اور جو سمجھتا ہے، وہ کہہ نہیں پاتا…میری آج کے حکمرانوں سے درخواست ہے، کہ ایک خط تحریر کر کے، کسی زنگ آلود نلکے میں ہی ڈال دیں…مجھے یقین ہے
کہ پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکے گا… 😏عمر بن خطاب راتوں کو اُن جھونپڑیوں کو بھی تلاش کر لیتے ہیں، جن میں بچے بھوک سے رو رہے ہیں…الحمدللہ… میرے حکمرانوں کو یہ تک نہیں پتا، کہ میرے ملک کے بچوں کو خالص خوراک تک نہیں مل پاتی، جس سے ان بچوں کی صحیح Growth ہو سکے…اور اس ساری دو نمبری کے پیچھے، میرے حکمرانوں کے اپنے ہی عزیز وزیر اور بیوروکریٹس اور تاجر حضرات ہیں… 😏میں بس اتنا جانتا ہوں کہ 2 سال اور 2 مہینے کے اندر، 3 برِاعظم میں کوئی فقیر نہیں بچتا… کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں بچتا… کوئی قرض دار نہیں بچتا…صرف…. 2 سال اور 2 مہینے کے اندر… 3برِاعظم کی سلطنت میں… اور پاکستان…!! ذرا world map کھول کر دیکھیں… World map میں ایک کیڑے جتنا نظر آنے والا ملک، 70 سال سے نہیں سنبھالا جا رہا… 😏کہاں 2 سال اور 2 مہینے… کہاں 70 سال… کہاں 3 برِاعظم (آدھی دنیا…) کہاں ایک ملک پاکستان… کیا اب بھی کسی کو لگتا ہے کہ یہ حکمران عوام کو ٹوپی نہیں پہنا رہے، بلکہ یہ مخلص ہیں…؟؟کیا اب بھی کسی کو لگتا ہے کہ عمران خان یا نواز شریف یا زرداری ملک کی تقدیر بدلیں گے…؟؟مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ صرف ٹوپی پہنانے کے طریقے بدلیں گے… ٹوپیاں بدلیں گے… اس کے سوا کچھ بھی نہیں…اسلیۓ میری درخواست ہے تمام سیاسی بُت پرستوں سے، کہ سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی آقاؤں کی پیروی بند کر دیں، یا پھر اپنے آپ تک محدود رکھیں…کیونکہ میرے نزدیک، پاکستان کی ترقی کا صرف ایک پیمانہ ہے…جس دن تک، ایک آخری پاکستانی بھی، روزگار کیلیۓ (کسی مجبوری کے تحت)، پردیس کا رخ کرے گا، میرے نزدیک تب تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا…باقی سب کے اپنے اپنے عقائد ہیں… جہاں عقائد کے ڈھیر، وہاں اختلافات کا بھی ڈھیر…بس اتنی دعا ہے کہ اللّٰہ ہم سب کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھا دے… اپنے محسن اور دشمن کا فرق سکھا دے… آمین…!!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website