ہمیں 1948 کا پاکستان چاہیے
کابینہ کا اجلاس جاری تھا، اے ڈی سی نے پوچھا “سر! اجلاس میں چائے سرو کی جائے یا کافی؟” چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا “یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے”، اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے بات جاری رکھی “جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر واپس جا کر پئے، قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں”۔ اس حکم کے بعد جب تک وہ برسرِاقتدار رہے، کابینہ کے اجلاسات میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا۔
گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے اڑتیس (38.5) روپے کا سامان خریدا گیا، آپ نے حساب منگوا لیا، کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں، حکم دیا “یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں” باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لئے تھیں، فرمایا “ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے”۔
برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستان کے دورے پر آ رہا تھا، برطانوی سفیر نے درخواست کی “آپ اسے ایئرپورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں” ہنس کر کہا “میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ آنا پڑے گا”۔
ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزٹنگ کارڈ سامنے رکھا، آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا “اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے”۔ یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے کارڈ پر اپنے نام کے نیچے “برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح، گورنر جنرل پاکستان” لکھوا دیا تھا۔
زیارت میں*سردی پڑ رہی تھی، کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیے، دیکھے تو بہت پسند فرمائے، قیمت پوچھی، بتایا گیا “دو روپے” گھبرا کر بولے “کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں” عرض کیا “یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں، فرمایا “میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے، ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیّاش نہیں ہونا چاہئے”، موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے بہت متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا “بیٹی میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں؟” نرس نے عرض کیا “سر! میں پنجاب سےہوں، میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے، میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں، آپ میرا تبادلہ پنجاب کرا دیں”، اداس لہجے میں جواب دیا “سوری بیٹی! یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں”۔
اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا حکم دیا، فائل وزارتِ خزانہ پہنچی تو وزیرِ خزانہ نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا “گورنر جنرل اس قسم کے احکامات جاری کرنے سے قبل وزارتِ خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں”، آپ کو معلوم ہوا تو وزارتِ خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کر دیا۔
ایک مرتبہ گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا، آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا “اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا، تو پھر کون کرے گا؟”
جب آپ گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو آپ کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی جس میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور آپ کی جان کو سخت خطرہ تھا اور اس خطرے کے باوجود آپ بغیر سیکیورٹی کے کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے۔
یہ تھا آج سے ساٹھ (60) برس پہلے کا پاکستان، وہ پاکستان جس کے سربراہ محمد علی جناح تھے۔
لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آ گئے، جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے سربراہِ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ قبل سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دئے جاتے ہیں، دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی، ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے۔
جس میں سربراہِ مملکت وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں پانچ پانچ کروڑ روپے کا اعلان کر دیتے ہیں، وزارت خزانہ کے انکار کے باوجود رائٹنگ ٹیبل تو کجا پورے پورے جہاز خرید لئے جاتے ہیں۔
جس میں صدور اور وزرائے اعظم کے احکامات پر سینکڑوں لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں، اتنے ہی لوگ نوکریوں سے برخواست کیے جاتے ہیں*اور ان سے کہیں زیادہ تبادلے عمل میں آتے ہیں اور کتنوں کو ہی قوانین و ضوابط بالائے طاق رکھ کر ترقیوں سے نوازا جاتا ہے۔
جس میں موزے تو رہے ایک طرف، بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے خریدے جاتے ہیں۔
جس میں ساڑھے اڑتیس (38.5) روپوں کی کیا وقعت؟ آج ایوانِ صدر کا ساڑھے اٹھارہ (18.5) اور وزیرِ اعظم ہاؤس کا بجٹ بیس (20) کروڑ روپے ہے۔
جس میں کارڈ پر بھائی کا نام لکھوانے کی کسی کو ضرورت ہی نہیں کہ ایوانِ اقتدار میں عملاً باپوں، خاوندوں، بھائیوں، بہنوں، بہنوئیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کا راج رہا ہے، جس میں وزیر اعظم ہاؤس سے سیکرٹریوں کو فون کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا “میں*صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں”۔
جس میں انگلستان کے ڈیوک آف گلوسٹر تو بہت دور امریکہ کے صرف نائب وزیر کے استقبال کے لئے پوری کی پوری حکومت ایئر پورٹ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔
جس میں چائے اور کافی کی بجائے کابینہ کے اجلاس میں مکمل لنچ اور مکمل ڈنر سرو کیا جاتا ہے اور جس میں ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے باورچی خانے ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں۔
جس میں سربراہِ مملکت جدید ترین بلٹ پروف گاڑیوں، ماہر سیکیورٹی عملہ اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلو میٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔
ہم اس ملک میں مساوات رائج نہیں کر سکے، اسے ایک بھی خوددار، با وقار اور ایماندار قیادت نہیں دے سکے، ہم اسے جدید، ترقی یافتہ اور پر امن ملک نہیں بنا سکے تو نہ سہی۔۔۔
لیکن شاید ہم اسے واپس 1948 تک بھی نہیں لے جا سکتے، ہم اسے 60 برس پرانا پاکستان بھی نہیں بنا سکتے۔
کوئی ہے جو ہم سے یہ ترقی، خوشحالی اور یہ عروج لے لے اور ہمیں ہمارا پسماندہ، غریب اور غیر ترقی یافتہ پاکستان واپس کر دے، جو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس کر دے کہ اس ملک کے 16 کروڑ عوام کو 2007 کی بجائے 1948 کا پاکستان چاہئے۔