لاہور: ہم بحیثیت قوم سنی سنائی آگے پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اب پاکستانیوں کے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے 200 ارب ڈالر کا قصہ ہی لے لیجیے، جسے سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں اور کبھی کسی نے اس معاملے پر تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی کہ آیا یہ خبر درست بھی ہے یا نہیں۔اب ڈیلی ڈان کے کالم نگار خرم حسین نے اس معاملے پر تحقیق کے بعد ایسا انکشاف کیا ہے کہ سن کر ہمارے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی ہوش اڑ جائیں گے۔ خرم حسین نے لکھا ہے کہ ’’سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر پڑے ہونے کی احمقانہ خبر مسلسل گردش میں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ اکیلے اس کے بینک میں پاکستانیوں کے 97 ارب ڈالر پڑے ہیں۔ کبھی سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیر خارجہ سے یہ بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ وہاں کے بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں۔ میری اس سابق وزیر سے بات ہوئی اور ان سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میں نے کبھی ایسا کوئی بیان دیا ہی نہیں۔‘ قرین قیاس بھی یہی ہے کہ کسی بینک کا ڈائریکٹر یا سابق وزیراس قدر احمقانہ بات کیسے کر سکتا ہے۔ ‘‘
خرم حسین لکھتے ہیں کہ ’’یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ڈاکٹر عارف علوی نے ن لیگی وزیرخزانہ سے پوچھا کہ حکومت سوئس بینکوں میں پڑی رقم واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ عارف علوی کو اس سوال پر تحریری جواب سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے دیا۔ انہوں نے جواب میں اپنی طرف سے دو باتیں شامل کر دیں جن میں 200ارب ڈالر کا عدد بھی شامل تھا۔ اس تحریری جواب سے وزیرخزانہ قطعی لاعلم تھے۔ اگلے دن یہ تحریری جواب میڈیا کی زینت بن گیا۔ کسی نے یہ خبر سیکرٹری خزانہ سے منسوب کی، کسی نے وزیرخزانہ سے۔ دراصل پہلی بار200ارب ڈالر کا عدد ایک معروف اخبار، جو تجارتی خبریں شائع کرتا ہے، کے دو مصنفین نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا، اور سیکرٹری خزانہ نے یہ عدد وہیں سے حاصل کرکے تحریری جواب میں درج کردیا۔‘‘
خرم حسین کے مطابق ’’جون 2011ء میں ایک بڑے ٹی وی چینل کے اینکر نے اس آرٹیکل میں دی گئی اطلاع پر پورا پروگرام کر ڈالا، جس میں اس آرٹیکل کی ایک مصنفہ بھی مہمان کے طور پر شامل تھیں، لیکن پورے پروگرام کے دوران اینکر نے مصنفہ سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ انہوں نے 200ارب ڈالر کا عدد کہاں سے حاصل کیا۔ اس کے چند ماہ بعد ایک وائر سروس نے سوئس بینک کے ڈائریکٹر سے منسوب کرکے یہ خبر چلا دی کہ صرف اس کے بینک میں پاکستانیوں کے 97ارب ڈالر پڑے ہیں۔ اگلے ہی روز یہ خبر مین سٹریم میڈیا کی زینت بن چکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے صرف 1.10ارب سوئس فرانک پڑے ہیں۔ اسے امریکی ڈالروں میں تبدیل کریں تو ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد رقم بنتی ہے۔ یہ عدد سوئٹزرلینڈ کے نیشنل بینک نے اپنی ویب سائٹ پر دے رکھا ہے۔ اس ویب سائٹ پر سوئس بینکوں میں پڑی دنیا بھر کے لوگوں کی رقم کو ان کے ممالک کے حساب سے واضح کیا گیا ہے۔ کوئی بھی اس ویب سائٹ پر جا کر دیکھ سکتا ہے کہ وہاں پاکستانیوں کی کتنی رقم پڑی ہے۔‘‘
خرم حسین نے مزید لکھا ہے کہ ’’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اخبار کے مصنفین نے یہ عدد کہاں سے حاصل کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان مصنفین نے اس معاملے پر 25جولائی کو جو پانچواں آرٹیکل لکھا اس میں بیان کردہ اعدادوشمار انہوں نے بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا سے لیے لیکن غلط لیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 1.95ارب فرانک پڑے ہیں۔ ان مصنفین نے اس عدد کا اعشاریہ ختم کرکے اسے 195ارب ڈالر بنا دیا۔ ایک اور موقع پر انہوں نے 3ارب سوئس فرانک کو ڈالروں میں تبدیل کرتے ہوئے اسے 418ارب ڈالر بنا دیا۔‘‘اب ان مصنفین کی دانستہ یا نادانستہ غلطی نے پورے ملک کو جس ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہم سنی سنائی کو آگے بڑھانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔