چلیں میرے میانوالی کے ایم این اے امجد نیازی کا ذکر تو آیا۔ پٹھان بھائی شہر یار آفریدی کو تھپڑ لگتے ہوئے ٹی وی سکرین پر دیکھا گیا۔ یہ واقعہ بہت شرمناک ہے مگر میں اسے ہلکے پھلکے انداز میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میری گذارش ہے کہ قارئین بھی اسے سنجیدگی سے نہ پڑھیں۔ قومی اسمبلی میں اراکین اسمبلی کے جھگڑے اور مار کٹائی دھینگا مشتی کی خبریں اور ٹی وی چینلز پر تصویریں دیکھ کر ”مزہ“ آیا۔ میں اس تاثر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر بڑی شرم بھی آئی۔ کبھی کبھی شرمندہ ہونے میں بھی مزا ہوتا ہے۔ مگر اس کا اظہار بڑا مشکل ہے۔ ساری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے تو ہم خود کیوں نہ اپنے آپ پر ہنسیں۔ دوسرے ملکوں کی اسمبلیوں میں بھی یہ مناظر کبھی کبھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر وقت ہر کہیں مہذب بننے والوں سے لوگ اکتا جاتے ہیں۔
ایسے بھی کئی اراکین اسمبلی ہیں کہ وہ پوری مدت میں ایک دفعہ بھی نہیں بولتے۔ انہیں بھی اپنے فن اور صلاحیت کا مظاہرہ تو کسی نہ کسی صورت کرنا ہی تھا۔ سو معلوم ہو گیا کہ وہ بھی رکن اسمبلی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آتے تو بھی آپ ناراض ہوتے ہیں۔ اب آئے ہیں تو یہ صورتحال بھی انجوائے کرو۔ ایک رکن اسمبلی سمجھتے تھے کہ میرا کام صرف یہ ہے حکومتی حلقوں کی طرف سے کوئی بل ہو یا بلا یا باگڑا بلا ہو ہم نے ہاتھ کھڑا کر کے تائید کرنا ہے۔ ایک دن اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس دوران کوئی بل اپوزیشن کی طرف سے پیش ہوا اس نے اپنی عادت کے مطابق ہاتھ کھڑا کر دیا۔ بعد میں پارلیمانی لیڈر کو اس کی وضاحت پیش کرنا پڑی۔
میری ملاقات امجد نیازی سے ہوئی ہے۔ وہ ڈاکٹر شیرافگن کے بیٹے ہیں۔ وہ کئی دفعہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے امجد نیازی رکن اسمبلی بننے لگے۔ میری ملاقات ڈاکٹر صاحب کی وفات پر امجد صاحب سے ہوئی تھی۔ وہ مجھے بڑے ٹھیک ٹھاک لگے۔ اب اتنی دیر بعد ہمارے اخبار نوائے وقت میں ان کی بڑی کڑاکے دار خوبصورت تصویر شائع ہوئی ہے۔
اس سے پہلے روکھڑی خاندان کے لوگ رکن اسمبلی بنتے تھے۔ ایک دفعہ بابائے روکھڑی خاندان امیر عبداللہ خان نے نسبتاً کم معروف ایم پی اے کے ایڈوائزر بننے پر پوچھا کہ اس کی گاڑی پر جھنڈا لہرا رہا تھا؟ جواب ہاں میں پا کے انہیں بڑی بے زاری ہوئی۔ روکھڑی خاندان کے بعد اب وتہ خیل فیملی اقتدار میں آتی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کے لیے رکن اسمبلی بننا ہی اقتدار میں آنے کے مترادف ہے۔
اب تو اخبار میں آ گیا ہے۔ نوائے وقت کے مطابق معین وٹو نے شہریار آفریدی کو تھپڑ دے مارا اور شہر یار آفریدی کسی ٹی وی چینل پر رات کو بیٹھے کہہ رہے تھے کہ ہم تو بیچ بچاﺅ کرانے والوں میں سے تھے؟ وزیر صاحب شاہد خاقان عباسی کو بھی مراد سعید کا دھکا لگا۔ ایک گھونسا بھی لگا۔ نجانے وہ کس کا تھا۔ امجد نیازی نے بھی شاہد خاقان عباسی پر حملہ کیا۔ وہ اور مراد سعید ڈیسک پر چڑھ گئے اور وہاں سے للکارتے رہے۔ اسی دوران کسی رکن اسمبلی کی چترالی ٹوپی فضا سے اچھلی جو آفریدی نے اچھل کر پکڑنے کی کوشش کی اور امجد نیازی سے ٹکرا گئے۔
جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق نے مطالبہ کیا ہے کہ تھپڑ بازی اور گالم گلوچ کے اس واقعے پر فوری طور پر بحث کی جائے تاکہ اس طرح کوئی واقعہ اور بھی ہو سکے۔ کئی معزز ارکان اسمبلی تماشا براہ راست نہیں دیکھ سکے۔ جس طرح کی زبان استعمال کی گئی۔ اشارے کیے گئے وہ فحش حرکات اور فحاشی بلکہ عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی نے تہذیب کی تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ اس کا فوری جواب شہریار آفریدی کی طرف سے یہ دیا گیا کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے بد تہذیبی کی تمام حدیں پار کر لی گئی ہیں ۔
اس سارے ہنگامے کے دوران میرے بھائی اور میرے ٹی وی چینل کے ہمسائے میں رہنے والے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی بے بسی دیکھنے والی تھی ۔ یہ کسی سپیکر کے زمانے میں سب سے بڑا افسوس ناک واقعہ ہے ۔ اسے کچھ دوست حادثہ کہہ رہے تھے ۔
گھونسوں ، تھپڑوں ، لاتوں اور گالیوں کا اس طرح آزادانہ اور ماہرانہ مظاہرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مراد سعید کہہ رہے تھے کہ یہ مظاہرہ کبھی کبھی ہونا چاہئے ۔ بڑی دیر سے میں ایک حکومتی رکن کی گستاخی کا جواب دینا چاہتا تھا۔ اسے تھپڑ مار کے بڑا مزا آیا۔ اس نے یہ بات بڑے مزے لے لے کے کئی بار سنائی ۔ وہ نوجوان اور خوبصورت آدمی ہے۔ اس دوران مزید نوجوان اور سمارٹ نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کو کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لئے ایوان میں نہ آئیں ۔ نواز شریف نے میدان میں جانا ویسے ہی آج کل چھوڑ رکھا ہے ۔ انہیں چاہئے کہ وہ مریم نواز کے گھر چلے جائیں اور چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ملنے سے گریز کریں۔ میں خوش ہوں کہ اس واقعے کے دوران چودھری صاحب ایوان میں نظر نہیں آئے ورنہ ان کا راجپوتی خون ضرور جوش مارتا۔
سید انتظار حسین زنجانی ایک روحانی شخصیت وہ آنے والے دنوں کی آنکھوں کے پار دیکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ علم نجوم کے حوالے سے وہ ایک رسالہ نکالتے ہیں۔ ماہرین نجوم کے حوالے سے یہ خبر سنائی ہے کہ نیا سال پاکستان کے لئے فیصلہ کن ہو گا اور طویل مدت کے لئے نگران حکومت بن سکتی ہے۔ یہ بات میرے لئے کافی مشکل بات تھی۔ مگر ساتھ ہی ایک مضمون میں برادرم یاسین وٹو کی تصویر ہے ۔ وہ نوائے وقت میں میرے برادر کالم نگار ہیں ۔ 2017ءکے لئے بہت خبریں ہیں مگر ایک خوشخبری پر میری نظر ٹھہر گئی۔
2017ءپاکستان کے لئے چمکتا دمکتا سال ہو گا۔
اس کے ساتھ یاسین وٹو کے علاوہ سید انتظار حسین زنجانی ، ڈاکٹر زیب خان اور سید مصور علی زنجانی کے اسمائے گرامی بھی ہیں ۔ 2017ءکا علم نجوم اور علم جفر کے حوالے سے عدد 1 (ایک) بنتا ہے جو واحد ہے۔ اللہ بھی وحدہُ لاشریک ہے ۔ اس لئے 2017ءمیں پاکستان پر اللہ کی بہت مہربانیاں رہی ہیں۔ ڈاکٹر زیب کے مطابق 2017ءمیں چین کا کردار بھی واضح ہے ۔ سی پیک کے معاملے کو عملی پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا ۔ 2017ءمیں امریکہ اور چین کے آمنے سامنے ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔ اس بار سب کا اتفاق ہے کہ 2017ءپاکستان کے لئے اچھا سال ہے۔