تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم
گزشتہ سال کے آخری ماہ سقوط ڈھاکہ کے روز افسوس ناک سانحہ پشاور رونما ہوا تو ہر پاکستانی کی آنکھ اشکبار ہوئی اس سانحہ نے جہاں قوم کو متحد کیا وہاں سیاست دانوں کو بھی ملکی سالمیت اور بقاکی خاطر ایک پلیٹ فارم پہ لاکھڑا کیا سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ لائحہ اختیارکرنے کیلئے کئی مشاورتی اجلاس منعقد کئے اور آخرکار سیاسی قیادت اکیسویں ترمیم لانے میں کامیاب ہو گئی کچھ سیاسی جماعتوں کو اس ترمیم پہ تحفظات تھے جو حکومت نے دور کردیئے قومی اسمبلی نے مندستور میں اکیسویں ترمیم 2015ء بل اتفاق رائے اور دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا، ایوان میں موجود تمام جماعتوں کے 247 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا ، وزیرقانون سینیٹر پرویز رشید اور وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کی جانب سے بل میں پیش کی گئی چار ترامیم اتفاق رائے سے منظور کر لی گئیں، بل کے تحت اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 اور پاکستان آرمی سے متعلقہ آئین کے آرٹیکل 245 میں ترامیم شامل ہیں
ترمیم کا دورانیہ دو سال کے عرصہ کیلئے ہوگا جبکہ وفاقی حکومت کو کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف مقدمہ ان خصوصی عدالتوں کو منتقل کرنے کا اختیار ہوگا ‘بل کے تحت پاک فوج کو دہشتگردی میں ملوث ہر طرح کے افراد ‘ عنا صر یا گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا۔ایوان نے اس تحریک کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ تحریک کے حق میں 247 جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ وزیر قانون سینیٹر پرویز رشید کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم اتفاق رائے سے منظور کرلی گئیں جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے جمع کرائی گئی ترامیم اراکین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈراپ کردی گئیں۔
دستور اکیسویں ترمیم 2015ء بل میں کہا گیا ہے کہ ملک میں غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ دہشتگردی اور پاکستان کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے والوں کے مقدمات کی تیز ترین سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں، موجودہ حالات میں پاکستان کو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس بل کا مقصد دہشتگرد گروپوں کی جانب سے مذہب یا فرقہ کا نام استعمال کرکے ہتھیار اٹھانے کا دعویٰ کرنے جبکہ مقامی اور غیر ملکی امداد کے حصول سے غیر ریاستی عناصر کو روکنا ہے۔ اس غرض سے پاکستان آرمی سے برسرپیکار دہشتگرد گروپوں اور مذہب کا نام استعمال کرنے والے اسلحہ بردار دہشتگردوں کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو افسوسناک سانحہ کے بعد پاکستان کے عوام نے منتخب نمائندوں کے ذریعے پاکستان سے دہشتگردی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا ہے۔۔ دستور اکیسویں ترمیم 2015ء بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لئے۔
ان اقدامات کو آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا۔ اس غرض سے اعلیٰ عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 کی شق (3) میں ترمیم کی جائے گی۔ جنگ کی صورتحال سے نمٹنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے پاک فوج کو دیئے گئے اختیارات سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015ء میں بھی ترمیم کے لئے پیش کردہ بل میں ترمیم کے بعد کسی بھی دہشتگرد گروپ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص جو مذہب یا مسلک کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا یا مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر حملہ کرے گا ،کسی سول یا فوجی تنصیبات پر حملہ میں ملوث ہوگا یا اغواء برائے تاوان کے لئے کسی شخص کو قتل یا زخمی کرے گا ‘ بارودی مواد کی نقل و حمل اور اسے ذخیرہ کرنے میں ملوث ہوگا’ خودکش جیکٹس یا گاڑیوں کی تیاری میں ملوث ہوگا یا کسی بھی قسم کے مقامی یا عالمی ذرائع سے فنڈنگ فراہم یا مہیا کرے گا’ اقلیتوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہوگا تو اس کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔
قومی اسمبلی میں 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر12 پارلیمانی جماعتوں اور فاٹاکے اراکین ایوان میں موجود رہے جنہوں نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ایوان میں موجود مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ(فنکشنل)، مسلم لیگ(ق)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشل پارٹی، قومی وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی،نیشنل پیپلز پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ فاٹا سے آزاد اراکین اور جمشیددستی نے بھی حق میں ووٹ دیا۔تحریک انصاف کافی عرصہ سے ایوان میں نہیں آ رہی۔ اس کا کوئی رکن موجود نہیں تھا۔ جمعیت علماء اسلام(ف)، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے اراکین بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتی رہی ہے لیکن اکیسویں ترمیم کی حمایت کرکے ایک اچھا اور دانشمندانہ فیصلہ کیا اور وہ جو چلے تھے ” نیا پاکستان ”بنانے موجودہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ترمیم میں حمایت نہ کر پائے اور پیچھے ہٹ گئے۔
اس ترمیم میں وہ چہرے بھی بے نقاب ہوگئے جو کہتے سنے گئے کہ ہم اس گناہ میں شامل نہیں ہوئے غیور پاکستانی قوم کو ان کے والد محترم کے الفاظ اب بھی یاد ہیں جو انہوں نے پاکستان کے بارے میں کہے تھے ان الفاظ کو یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں اس ترمیم کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں نے مثبت روایت کی بنیاد رکھی ہے نئی ترمیم سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے کس کی کیا سوچ ہے کون پاکستان کی سلامتی چاہتا ہے اور کونسی جماعتیں ملک کی سلامتی نہیں چاہتیںاس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتفاق رائے کی ضرورت تھی وہ جماعتیں جو اس ترمیم کا ساتھ نہیں دے سکیںاگر حمایت کرتیں تو دنیا کو ایک اچھا پیغام جاناتھا۔
تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم