counter easy hit

اسلام آباد کے نواح میـں 24ہزار سال پرانے غار

24 year old cave

24 year old cave

اسلام آباد … ….شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کے جنوب مغرب میں واقع گاؤں ہےجو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ سات سو سال پہلے شاہ اللہ دتہ نام کے بزرگ نے اس گاؤں کو بسایا۔ ان کا مزار بھی اسی گاؤں میں واقع ہے۔
مارگلہ کے دامن میں بسے اس گاؤں میں بہت سی تاریخِ جگہیں ہیں ۔اس گاؤں سے سکندر اعظم اور مغل حکمران بھی گزر کر گئے۔ یہاں شیر شاہ سوری کا قائم کردہ کنواں اور دیوار بھی واقع ہیں۔اسلام آباد میں رہنے والے لوگوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ شاہ اللہ دتہ گاؤں میں واقع غاربدھ مت دور کے ہیں۔تاریخ دانوں کے مطابق یہ غار چوبیس ہزار سال پرانے ہیں اور ان پر بدھوں کے مذہبی پیشوا مہاتما بدھ کے نقوش تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقوش تو مٹ گئے ہیں لیکن غار کے خدوخال ویسے ہی ہیں۔ان غاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غاروں میںکسی زمانے میں سرائے قائم تھے اور مسافر یہاںٹھہرتے تھے۔غاروں میں دروازے کھڑکیاں موجود ہیں۔غار کے نزدیک قدرتی پانی کا چشمہ ہے جو صدیوں سے رواں ہے۔غار کے قریب بہت سے پرانے برگد کے درخت بھی لگے ہیں ۔محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ درخت بھی تقریباًسات سو سال پرانے ہیں۔یہ جگہ سی ڈی اے کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ یہاں آنے کا راستہ بہت دشوار ہے اور سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔ان غاروں کے اردگرد پہاڑوں پر کرشنگ جاری ہے اور درخت کاٹے جارہے ہیںجس کی وجہ سے علاقے میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اور اس جگہ کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔یہاں پر ایک سو سال پرانا باغ بھی تھا جس کی نشانی اب صرف ایک درخت کے روپ میں ہی رہ گئی ہے ۔باقی تمام درخت ٹمبر مافیا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔دوہزار گیارہ میں اس وقت کے سی ڈی اے چیئرمین نے سادھو کا باغ دوبارہ آباد کرنے کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ ان غاروں میں چند افراد نے اپنی رہائش گاہیں بھی بنا رکھی ہیں۔سی ڈی اے نے ان تمام معاملات پر چشم پوشی کررکھی ہے۔یہ یونیسکو کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔سی ڈی اے فوری طور پر یہاں پہاڑوں پر کرشینگ کو روکوائے، پہاڑوں پر غیر قانونی تعمیرات پر پابندی عائد کرے اور شاہ اللہ دتہ میں واقع تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرے۔اس جگہ پر نا ہی کوئی قیام وطعام کی جگہ ہے نا ہی سی ڈی اے کی طرف سے کوئی معلوماتی بورڈ نصب ہیں جس سے سیاحوں کو اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔یہاں سب سے پہلے سڑک تعمیر ہونی چاہئے جبکہ جگہ جگہ سائن بورڈز بھی نصب کئے جانے چاہئیں۔سی ڈی اے کی طرف سے گائیڈ بھی ہونے چاہیں جو سیاحوں کو اس جگہ کی تاریخ بیان کرسکیں۔تاریخی غاروں کی حفاظت کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کی مدد لینی چاہیے۔یہاں مزید پودے لگانے بھی ضرورت ہے ۔پہاڑ کی کٹائی کا کام فوری طور پر روکا جائے۔سی ڈی اے کی زرا سی توجہ سے یہ جگہ ناصرف سیاحوں کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے بلکہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی اسے شامل ہونے کا موقع مل سکے گا۔