اسلام آباد(ایس ایم حسنین) بھارت کی طرف سے پلوامہ حملے کے بعد نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے بعد 27 فروری 2019 کو بھارتی فضائیہ کی عبرتناک شکست کے مزید ثبوت سامنے آگئے۔ پاکستانی شاہینوں کی بھارتی فضائیہ پر واضح فتح کو متنازعہ بنانے والے حالیہ سیاسی بیانات کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے مزید ناقابلِ تردید ثبوت پیش کردیئے گئے ہیں۔بھارتی پائلٹ ابھینندن کے ناکام فضائی حملے کے بعد ذلت آمیز گرفتاری و رہائی کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم نے اپنے بیان میں رافیل طیاروں کی کمی کا رونا روتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان کے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔انڈین کور کمانڈر بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر پاکستان کی تعریف اور برتری تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل عطاء حسین کے بقول، ’’پاکستان نے جس طرح ہندوستان کے بیانیے کو تباہ کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے جس طرح ’’انفارمیشن ڈومین‘‘ میں بھارت پر سبقت حاصل کی، اس کےلیے وہ زبردست تحسین کے مستحق ہیں۔
پلوامہ حملے اور اس کے بعد 27 فروری کے روز
تاریخ اور ریکارڈ کی درستگی کےلیے ’ایکسپریس نیوز‘ نے خصوصی تحقیقی رپورٹ پیش کی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ 27 فروری پاکستانی قوم کی فتح کا دن تھا، جسے خود دُشمن نے بھی تسلیم کیا ہے۔
دوسری جانب
واضح رہے کہ 2019 بھارتی الیکشن کا سال تھا اور مختلف تجزیہ نگار بَرملا کہہ رہے تھے کہ نریندر مودی الیکشن جیتنے کےلیے مقبوضہ کشمیر میں کوئی فالس فلیگ آپریشن کرسکتا ہے۔ 11 دسمبر 2018 کو ہندوستانی تجزیہ نگار اور ’’انڈین پروفیسر آف پیس اینڈ کنفلکٹ ریسرچ‘‘ اشوک ساون نے دعویٰ کیا کہ مودی الیکشن سے قبل پاکستان سے جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کی الیکشن مہم ہمیشہ پاکستان مخالف بیانیے پر چلائی جاتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی یہ پیش گوئیاں اس وقت درست ثابت ہوئیں جب 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں ایک فالس فلیگ آپریشن میں 40ہندوستانی فوجی مارے گئے۔ لیکن اس معاملے میں حیرت انگیز حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ حملے میں مارے جانے والے تمام ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں کا تعلق بطورِ خاص نچلی ذاتوں، کم تر سمجھی جانے والی نسلوں اور اقلیتوں سے تھا۔ حملہ کرنے والا ایک مقامی کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار تھا، جسے مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج نے 2017 میں نہ صرف دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اُس کے دو ساتھیوں کو شہید بھی کردیا۔
اس حوالے سے عادل احمد ڈار کے والدین نے بھی ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ بھارتی تشدد کی وجہ سے عادل کی نفرت میں اضافہ ہوا۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوستان نے خود ہی اُسے استعمال کیا ہو؟‘‘ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا۔
14 فروری کے روز ہی پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر الزام تراشی بند کی جائے۔ بعد ازاں 19 فروری 2019 کو وزیراعظم پاکستان نے بھی قوم سے خطاب میں تحقیقات اور ثبوت کی بات کی۔ 14 فروری سے 25 فروری تک کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ 25 اور 26 فروری کی درمیانی شب، 2 بج کر 54 منٹ پر بھارت نے اقوامِ متحدہ کے آرٹیکل 2 (4) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر ایک فضائی حملہ کرنے کی ناکام کوشش کر ڈالی۔ تاہم پاکستانی شاہینوں کی فوری اور بھرپور جوابی کارروائی سے خوفزدہ ہو کر ہندوستانی جنگی جہاز بوکھلاہٹ میں اپنا پے لوڈ گرا کر بھاگ گئے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار، سنجیدہ اور پختہ کار ریاست کے طور پر دُنیا کو فی الفور آگاہ کیا اور 4 بج کر 42 منٹ پر تمام حقائق دُنیا کے سامنے رکھ دیئے۔ 26 فروری 2019 کو، صبح 6 بج کر 36 منٹ پر پاکستان نے اس علاقے اور بھارتی رُوٹ کی نشاندہی کردی؛ اور کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہونے کے واضح ثبوت دکھادیئے۔ بھارت نے پہلے ایک مدرسے کو مکمل تباہ کرنے، اور پھر 300 سے 350 پاکستانیوں کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن جب پاکستان نے دُنیا کے سامنے ٹھوس ثبوت رکھے تو بھارتی وزارت خارجہ کے تمام بیانات کا جھوٹ کھل کر سامنے آگیا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو بھی ماننا پڑا کہ بھارتی فضائیہ کی نام نہاد کارروائی میں کوئی پاکستانی بھی زخمی یا شہید نہیں ہوا۔ دوسری جانب فاروق عبداللہ نے بھی کہا کہ آج کے دور میں ایک بندہ بھی مرجائے تو پتا چل جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 300 لوگ مرجائیں اور پتا نہ چلے… یہ تو بالکل بھی نہیں ہوسکتا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ان کے طیاروں نے ’’بہت بڑا مدرسہ تباہ کردیا، بہت سے لوگوں کو ماردیا،‘‘ جس کے بعد دُنیا کی مشہور، معتبر اور بڑی نیوز ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ نے اس علاقے کے وہ تازہ ترین سیٹلائٹ امیجز پیش کردیئے جو ’’پلینٹ لیب‘‘ سان فرانسسکو نے جاری کیے تھے اور جن میں مبینہ حملے کے بعد اس مقام کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔ ان سیٹلائٹ امیجز نے بھی ہندوستان کے تمام دعووں کو واضح طور پر جھٹلادیا۔ یہی نہیں بلکہ یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے بھی ہندوستانی دعووں کو غلط ثابت کردیا۔ وائر سروسز نے دعوی کیا کہ اس علاقے میں تمام عمارتیں اُسی طرح موجود ہیں جیسی اپریل 2018 میں اس علاقے کے سیٹلائٹ امیجز میں دکھائی دے رہی تھیں۔
پاکستان نے 26 فروری ہی کے روز بھارت کو اعلانیہ جواب (رسپانس) سے خبردار کردیا تھا؛ اور صرف 24 گھنٹوں میں ہی تمام جنگی آپشنز کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے دِن کی روشنی میں بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ پاکستان نے صبح 8 بج کر 22 منٹ پر ہندوستان کے ملٹری ٹارگٹس کو لاک کرنے کے بعد 6 اسٹرائکس کیں۔ ان ملٹری ٹارگٹس میں 2 بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز بھی شامل تھے جہاں ایک لوکیشن پر ہندوستانی آرمی چیف بھی موجود تھے۔ راجوڑی، نوشہرہ، ناریاں سپورٹ ڈِپو میں پاکستان نے دِن کے اُجالے میں اسٹرائکس کیں۔ پاکستان نے نا صرف اسٹرائکس کیں بلکہ بھارت کے 2 جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ پھر دُنیا نے مودی اور ہندوستان کے غرور کو ہوا میں بکھرتے اور پھر ابھی نندن کی صورت میں نیچے گرتے دیکھا۔ ہندوستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے پھر ایک مرتبہ اپنی قوم سے جھوٹ بولا اور اپنے تباہ ہونے والے طیاروں کو گمشدہ قرار دیا۔ لیکن جب پاکستان نے ابھی نندن کو دُنیا کے سامنے دکھایا تو اُسے بھی لاپتا قرار دے دیا۔
بدحواسی کے عالم میں بھارت نے اپنے ہی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا اور اُس پر بھی جھوٹ بولا۔ 27 فروری 11 بج کر 30 منٹ پر پاکستان نے اپنی فتح کو دُنیا کے سامنے رکھا… ثبوتوں کے ساتھ۔ بھارت نے میزائل حملوں کی دھمکی دی لیکن جب پاکستان نے ایک کے بدلے 3 میزائلوں کی جوابی دھمکی دی تو ہندوستان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
ٹرمپ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے اپنی کتاب ’’وہ کمرہ جہاں یہ سب کچھ ہوا‘‘ (The Room Where it Happened) میں ہندوستانی قیادت کی بوکھلاہٹ اور پاکستان کی جانب سے مزید رسپانس سے بچنے کےلیے امریکا سے مدد مانگنے کا واقعہ بہت واضح طور پر لکھا ہے۔
28 فروری کو وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں ابھی نندن کو خطے کے امن اور اعلی ترین اخلاقی اقدار پر عمل کرتے ہوئے رِہا کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا۔
یکم مارچ 2019 کو پاکستانی میڈیا نے رات 8 بجے سے 8:30 بجے تک بھارتی جنگی قیدی ابھی نندن کا انٹرویو دکھایا، جس پر پورے بھارتی میڈیا نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ اسے آگے فارورڈ نہ کیا جائے۔ رات 9 بجے پاکستان نے ابھی نندن کو پریڈ کرواتے ہوئے بھارت کے حوالے کیا۔ بھارتیوں نے نہ تو ابھی نندن کو سلیوٹ کیا اور حراست میں بھی لیا۔
اس کے بعد 4 مارچ کے روز پاک بحریہ نے ہندوستان کی جنگی آبدوز کو ڈٹیکٹ کیا، جو ایک Sure Kill تھا۔
تمام حقائق، مکمل حوالوں کے ساتھ پاکستانی عوام کے سامنے ہیں۔ اب یہ فیصلہ پاکستانی عوام خود کرسکتے ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔