صفر۔28 تاریخ اسلام کا سیاہ دن۔۔راولپنڈی میں تابوت وتعزیے کے جلوس ۔ماتمی سنگتوں کی شرکت
۔۔۔۔۔
تحریرو تحقیق۔۔۔اصغر علی مبارک سے۔۔۔واقعہ کربلاسے قبل ہی 28صفر المظفر50 تاریخ کا وہ سیاہ دن بن چکا تھا جب نواسہ رسولؐ خلیفۃ المسلمین حضرت امام حسنؓ کو زھر دیکر شہیدکر دیا گیا ھر سال کی طرح اس سال بھی
28صفر شہادت امام حسن علیہ السلام کے موقع پر راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے چوہڑہڑپال میں دربار حضرت سخی شاہ پیارا پر ماتمی جلوس اختتام پذیر ھوئے ماتمی دستوں کے ساتھ ساتھ تعزیہ۔ علم و ذوالجناح۔تابوت اور جھولے تبرکات شہداء کربلا موجود رھےاس موقع پر پرسہ دینے کے لیے پاکستان کے نامور نوحہ خواں اور ماتمی سنگتوں نے بھرپور شرکت کی جبکہ عزاداروں نے زنجیر زنی اور سینہ کوبی کی۔۔ ماتمی جلوس کے شرکاء میں لنگر و نیاز تقسیم کیا گیا لنگر حسینی کے ساتھ پانی و دودھ کی سبیلیں بھی لگائی گئیں۔ 28 صفر تاریخ اسلام کا سیاہ ترین دن ہے۔امام حسن علیہ السلام کی شہادت کےحوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزندنامور عالم اہلسنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی امام حسن ؓاور امام حسین ؓ کی شہادت کو شہادت رسولِ خداؐ سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر عیسی ٰ ؑ تک تمام پیغمبران کے اوصاف، کمالات اور خوبیاں خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ میں جمع ہو گئی تھیں ۔مگر ایک کمال باقی رہ گیا تھا وہ تھا شہادت کا مرتبہ وہ حضور کو خود حاصل نہیں ہوا تھا اس کا راز یہ تھا کہ اگر حضور ؐ کسی جنگ میں شہید ہو جاتے تو اسلام کی شوکت متاثر ہوتی ۔حکمت الہی اور کارسازی نے یہ پسند فرمایا کہ شہادت کا کمال بھی حضور ؐ کو مل جائے ۔ کیونکہ حسن ؓو حسین ؓ کا رسول کریم ؐ کا بیٹا ہونا دلائل سے ثابت ہے اس لئے ان دونوں نواسوں کی شہادت رسول ؐ کی شہادت ٹھہری (سر الشہادتین )شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔جسے لالچ دیا گیا تھا کہ اس کا نکاح یزید بن معاویہ سے کرادیا جائے گا۔(سر الشہادتین )امام حسن ؓ 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضیٰؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ میں تشریف لائے ۔ رسولِ خداؐ کیلئے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسو ل کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کوجواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوںگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہوگا ۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ یعنی امام حسن ؓ و حسین ؓ کو قرار دیا گیا۔
حضرت عمرابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے ۔بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؓ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔ ولادت کے ساتویں دن سرکارکائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابۃ )۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا۔ــ’’ آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘ٓامیرالمومنین ؓنے عرض کی ۔’’آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔‘‘پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لیکر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھئے۔تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔ ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓکے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسن ؓسے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔حضرت امام حسن ؓ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امام حسین ؓ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے ۔خداکی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا ؐکی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کیلئے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت حضرت امام حسن اور امام حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کیلئے) اور ان کو زمین پر بٹھلایا ۔پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپ ؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہوگئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔آپؐنے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔ (سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1146) ۔آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت ؐنے خطبہ ترک کردیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا ( ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد)حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ نے حضرت حسن بن علیؓ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے، ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما”۔ (بخاری، مسلم)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں دن کے ایک حصہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ نکلا ،آپ حضرت فاطمہ ؓکی رہائش گاہ پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، کیا بچہ یہاں ہے؟ یعنی امام حسنؓ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آگئے یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لپٹ گئے۔ آقا ومولیٰؐ نے فرمایا، ”اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے”۔ (بخاری، مسلم)حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (فضائل الصحابہ)حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰؐ ؐنے حسن بن علی ؓکو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا تو ایک آدمی نے کہا ،اے لڑکے ! کیا خوب سواری پر سوار ہو۔ نبی کریمؐنے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت خوب ہے۔ (ترمذی) یہی حدیث حضرت عمر ابن خطابؓ ؓسے بھی روایت ہے (مسند بزار،مجمع الزوائد)حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے کہ ایک رات میں کسی کام سے میں نبی کریمؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آقا ومولیٰ ؐ باہر تشریف لائے۔ آپ ؐنے چادر میں کوئی چیزلی ہوئی تھی اور مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ چیز کیا ہے۔جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو عرض گزار ہوا،میرے آقا!آپؐ نے کس چیز پر چادر لپیٹی ہوئی ہے؟ آپؐ نے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ آپ ؐکی دونوں رانوں پر حسن اور حسین ؓموجود ہیں۔ فرمایا، یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت رکھ اور اْن سے بھی محبت رکھ جو ِان دونوں سے محبت رکھیں۔ (ترمذی، صحیح ابن حبان)حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ ہم آقا ومولیٰ ؐ کے ساتھ سفر پر نکلے۔ راستے میں آپ نے حسنین کریمینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ انکے پاس تشریف لے گئے اور رونے کا سبب پوچھا۔ سیدہ فاطمہ ؓنے بتایا کہ انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور ؐ پانی کے لیے مشکیزے کی طرف بڑھے تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا مگر (گرمی کی وجہ سے زیادہ استعمال کے باعث) کسی کے پاس پانی موجود نہ تھا۔ آپ نے سیدہ فاطمہ زہراؓ سے فرمایا، ایک صاحبزادہ مجھے دیدو۔ انہوں نے پردے کے نیچے سے ایک شہزادہ دے دیا۔ آپ نے اسے سینے سے لگا لیا لیکن وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا۔ پس آپ ؐنے باری باری دونوں شہزادوںکے منہ میں اپنی مبارک زبان ڈال دی تو وہ سیراب ہو کر خاموش ہو گئے۔ (طبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد، خصائص کبرٰی)حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐسے پوچھا گیا کہ اپنے اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا ، حسن اور حسینؓ۔ آپؐ حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کرتے ، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے۔ (ترمذی)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسن اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ (ترمذی،مسند احمد) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (فضائل الصحابہ)حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؓ نے فرمایا،کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسینؓ ہیں (طبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد)سیدہ فاطمہؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کو رسول کریم ؐکے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)
امام حسن مجتبیٰؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور آنحضرتؐ کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم ؐکی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی شہادت سے تین سے چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔فرزند رسول امام حسن مجتبیٰؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اس کے ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے اور تقریباً چھ ماہ تک آپر امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے ۔حضرت امام زین العابدین ؓفرماتے ہیں کہ امام حسنؓ زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثریاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے (روضۃ الواعظین بحارالانوار)۔ امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم و پرہیزگارتھے۔
امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے 21رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ21رمضان40 ھ یوم جمعہ کاہے( ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ ’’اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی ‘‘سب نے اس شرط کو قبول کرلیا . آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا .لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسنؓ ؓؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء چاہئے تھاامام حسن ؑ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہ وفساد کا سر کچلنے ،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانارسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایساناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔
امام حسنؓ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے ، لیکن حق کے مرکزاور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسن ؓکا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کرنواسہ رسول ؐ امام حسن کوزہردے کرے شہیدکردیاگیا( مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء ،روضۃالصفا ، حبیب السیر ،طبری ،استیعاب) رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28صفر50ھ کو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1153837748153574&id=100005820781248&sfnsn=mo&d=n&vh=i