چھ صدیوں تک مشرقی یورپ سمیت تین براعظموں پر خلافت عثمانیہ کا جھنڈا لہراتا رہا۔ بلآخر تین 3 مارچ 1924ء کو مسلمانوں کا عظیم الشان خلافت غروب کردیا گیا۔
سقوط خلافت عثمانیہ
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سقوط خلافت عثمانیہ کا مطلب کیا ہے؟ سیکولر مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ ایک کٹر مذہبی حکومت تھی، اچھا ہوا کہ اس کا خاتمہ ہو گیا۔ تاریخ سے نابلد نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ ایک حکومت تھی جو ٹوٹ گئی اس میں کونسی ایسی بات کہ ایک صدی گزرنے کو آئی لیکن اس کو بھلایا نہیں جارہا ۔ عرب نوجوانوں کو یہ “پٹی ” پڑھائی گئی کہ تم ترکوں کے غلام تھے تمہیں آزادی ملی تمہارے لیے تو اس میں خوشی کا سامان ہے۔
میری سوچ مذکورہ بالا طبقات سےقدرے مختلف تو تھی۔لیکن سقوط خلافت عثمانیہ کا لفظ نوک زبان وقلم پر آتے وقت جو دل پر اثر ہونا چاہیے وہ نہ ہوتا تھا
پھر ایک دن میرے جغرافیہ کے استاد کی زبان سے وہ جملہ نکلا جو مجھے سقوط خلافت عثمانیہ کے دردناک سانحے سے روشناس کرا گیا
استاد نے فرمایا تھا ” خلافتِ عثمانیہ کے ملبے پر14 کمزور ملکوں کی بنیاد رکھی گئی ” اب مزید تقسیم کی مذموم سازشیں عروج پر ہیں.
اسی جملے کو اگر تھوڑا وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو پورے سانحے کی وہ حقیقت سمجھ آجائے گی جس کوہمارے دشمنوں نےبھلانے وچھپانے کیلے کوئی دقیقه فروگذاشت نہیں کیا .
خلافت عثمانیہ تین براعظموں (جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ شمالی افریقہ کے بیشر علاقہ) پر مشتمل تھی موجودہ
شام ،مصر، لبنان، عراق، لیبیا، سعودی عرب، قطر اورمتحدہ عرب امارات وغیرہ اس ایک خلافت کے جھنڈے کے نیچے متحد تھے، ان کے وسائل مسائل یکساں تھے، کوئی ان کے خلاف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے بھی ہزار بار سوچتا تھا ۔
خلافت عثمانیہ کے زیر نگین بعض علاقوں کی تہہ میں موجود سیال سونے کی بھنک یورپ کے ٹھگوں کو پڑ چکی تھی۔ وہ اسکے اڑانے کے منصوبے بنانے لگے، برطانيہ نے سلطان عبدالحمید سے حجاز، عراق اور شام میں آثار قدیمہ کی کھدائی کی اجازت مانگی جو بعض مصالح کی بنا پر دے دی گئی، جلد ہی خلیفہ پر آشکارا ہوا کہ یہ آثار قدیمہ نہیں بلکہ تیل کے کنوؤں کی کھدائی ہورہی ہے خلیفہ نے کھدائی بند کروا کہ ان کو واپس بھیج دیا، اس دن سے کفریہ طاقتوں نے طے کر لیا تھا کہ اگر ان خزانوں سے مستفید ہونا ہے تو خلافتِ عثمانیہ کو توڑناہوگا، وفد کی واپسی کے کچھ دن بعدہی نام نہاد “ترقی پسند” تحریک کھڑی کی گئی جس نے خلافت کو دن بدن کمزور اور انتشار کا شکار کرنا شروع کر دیا۔
3مارچ1924 کو خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا، اور اس کی کوکھ سےچھوٹے چھوٹے کمزور ممالک کاقیام عمل میں لایا گیا، پھر ان کو مزید کمزور کرنے کیلئے آپس میں دیا گیا، نفرت کی اتنی دیواریں کھڑیں کی کہ ان کو گرانے کیلئے بھی عمر نوح درکارہے ،کہ مبادا کہیں یہ ایک دوسرے کی مدد کیلئے متحد ہو کر ہمارے سارے خواب چکنا چور نہ کر دیں
اگر خلافت عثمانیہ قائم رہتی تو روس وامریکہ کی جرات نہ ہوتی کہ وہ باہمی جنگ کا ایندھن شام وافغانستان کے مسلمانوں کو نہ بناتے، عربوں کے سینے پر ناپاک ناسور اسرائیل بھی وجود میں نہ آتا، سعودی عرب وقطر کو اپنی حفاظت کیلئے امریکی بحری بیڑے کا محتاج نہ ہونا پڑتا، شامی، عراقی، نائیجیرن مسلمان غربت وافلاس کے ہاتھوں مر نہ رہے ہوتے، اور ان کے تیل پر یہودو نصاری عیاشیاں نہ کر رہے ہوتے۔
ہر چیز میں مغرب کی تقلید کرنے والے کاش اس معاملے میں بھی مغرب سے سبق لے لیتے۔کئی اقوام اور 50 سے زائد ریاستوں پر مشتمل امریکہ متحد رہ سکتا تھا ،تو مسلمان خلافت عثمانیہ کی چھتری کے نیچے کیوں نہیں رہ سکتے تھے؟
دوسری بڑی عالمی طاقت روس ٹوٹنے سے قبل 15 ریاستوں پر مشتمل تھا، جن میں 6کے قریب اقوام ایک جھنڈے کے نیچے متحد تھیں، موجودہ ابھرتی ہوئی طاقت چین کو بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے
نہ جانے ہم مسلمان یہ بات کب سمجھیں گے کہ جب کئی ریاستوں کے وسائل ایک جھنڈے کےنیچے متحد ہوں تو یہ ترقی وعروج کا ضمانت ہوتی ہے، ان کا ایک رعب ہوتا ہے، فتوحات ان کا مقدر ہوتی ہیں اوراس کے برعکس تقسیم کا انجام عراق شام یمن میں بہتے لہو کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اب بھی وقت ہے کہ مزید تقسیم در تقسیم سے بچنے کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا نفرت کی دیواروں کو مسمار کر نا ہوگا.
دانائے مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا
زرا دیکھ اس کو جوہو رہاہے،ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدکہن کی داستانوں میں