اسلام آباد (ویب ڈیسک) برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ سعودی صحافی خاشقجی کے اغوا کے منصوبے سے آگاہ تھا اور سعودی عرب سے اس منصوبے پر عمل پیرا نہ ہونے کی درخواست کی تھی۔ اخبار کے مطابق سعودی صحافی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ خاشقجی سعودی عرب کی جانب سے یمن میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے
تفصیلات منظر عام پر لانے والے تھے۔ایک اور علیحدہ ذریعے نے اخبار کو بتایا کہ برطانیہ خاشقجی کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے سے تین ہفتے قبل ہی ان کے اغوا کے منصوبے سے آگاہ تھااور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے سعودی عرب کو اس مشن پر عمل پیرا ہونے سے منع کیا تھا۔واضح رہے کہ سعودی صحافی کی لاش ترکی میں سعودی قونصل خانے سے ملی تھی جس پر امریکہ سمیت دنیا بیشتر ممالک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے اور دوبارہ نظر نہیں آئے۔اس گمشدگی کو ترکی نے مقامی میڈیا کے ذریعے زندہ رکھا اور روزانہ کی بنیاد پر نئے انکشافات آتے رہے اور عالمی سطح پر اس حوالے سے شور برپا ہونے لگا۔پہلے سعودی عرب نے اس حوالے سے خاموشی اپنائی لیکن جب امریکہ نے اس معاملے پر اپنا پہلا بیان دیا تو سعودی عرب نے پہلے تو ترکی سے رابطے شروع کیے اور پھر بیان جاری کیا۔تاہم دو اکتوبر سے اب سے چند روز قبل سعودی عرب نے جہاں بیانات تبدیل کیے وہیں امریکہ کے بیانات میں بھی تبدیلی ہوتی گئی10 اکتوبرامریکہ کی جانب سے پہلا بیان جاری ہوا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے سعودی عرب کے اعلیٰ حکام سے اس حوالے سے بات کی ہے۔ ’لوگوں نے ان کو (جمال خاشقجی) کو اندر جاتے ہوئے دیکھا لیکن باہر نکلتے ہوئے نہیں۔ ہم اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ یہ خوفناک ہے۔ صورتحال خراب ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے نہ کسی رپورٹر کے ساتھ نہ کسی اور کے ساتھ۔سعودی عرب نے پہلی بار جمال خاشقجی کے حوالے سے ترکی کے حکام سے رابطہ کیا۔11 اکتوبرلیکن جیسے جیسے ترکی میڈیا کو اطلاعات لیک کرتا رہا سعودی عرب پر دباؤ میں اضافہ ہوتا گیا۔امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز نے واشنگٹن میں سعودی عرب پر لگنے والے الزامات کی تردید کی اور ان الزامات کو ’بدنیتی پر مبنی لیکس اور افسوس ناک افواہیں‘ قرار دیا۔ انھوں نے بیان میں کہا کہ سعودی عرب کو بھیجمال خاشقجی کے حوالے سے تشویش ہے۔سعودی حکام نے ایک بار پھر دہرایا کہ جمال خاشقجی کچھ دیر بعد قونصلیٹ سے چلے گئے تھے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو ایک انٹرویو میں عندیہ دیا کہ شاید سعودی حکام نے جمال خاشقجی کو مار دیا ہو۔انھوں نے مزید کہا کہ امریکی تفتیش کار ترکی میں حکام کی مدد کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سعودی عرب کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں اور ’ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ہوا‘۔12 اکتوبرترکی میں حکام نے قونصل خانے کی ویڈیوز اور آڈیوز لیک کیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے قونصل خانے میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا۔ تاہم آڈیوز میں میں اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ قونصل خانے کے اندر جمال خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا۔سعودی عرب سے ایک ٹیم ترکی پہنچی اور سعودی عرب نے ترکی سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام کی درخواست کی جس کو ترکی کے حکام نے قبول کیا۔13 اکتوبرامریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ سعودی عرب کا ہاتھ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے موت میں ہے تو وہ اسے ’سخت سزا‘ دے گا۔اگر ایسا ہوا تو میں بہت پریشان اور ناراض ہوں گا۔‘ تاہم انھوں نے یہ نہیں کہا کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ کیے جانے والے بڑے فوجی معاہدے منسوخ کر دے گا۔ ’میں ملازمتوں کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا، میں ایسا معاہدہ کھونا نہیں چاہتا۔‘سعودی عرب کے وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف بن عبدالعزیز نے ایک بیان میں جمال خاشقجی کی گمشدگی کو تسلیم کیا لیکن صحافی کی گمشدگی اور قتل میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کی خبروں کی تردید کی۔15 اکتوبرسعودی عرب نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا ہے اور کہا کہ سعودی عرب کے خلاف کسی بھی کارروائی کے جواب میں اس سے بڑا ردعمل سامنے آئے گا۔سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کا ملک جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں کسی بھی سیاسی اور معاشی دھمکیوں کو مسترد کرتا ہے اور اگر اس پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ فون پر اس معاملے پر بات کی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی گشمدگی کے پیچھے کچھ ‘خود سر قاتل’ بھی ہو سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا ’سعودی حکومت اس بات سے بالکل لاعلم ہے کہ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا۔ میں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے بات کی ہے لیکن انھوں نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ ’ہمارے سعودی شہری‘ کے ساتھ کیا ہوا۔‘16 اکتوبرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر سعودی عرب کو جلد بازی میں قصور وار ٹھہرانے پر خبردار کیا ہے۔’سعودی عرب کو ذمہ دار ٹھہرانا ایسے ہے جیسے ’ثابت کیے جانے تک قصور وار‘ ٹھہرانا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا۔ انھوں نے مجھے بتایا انھوں نے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور جلد ہی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور تمام سوالات کے جواب دیے جائیں گے۔‘19 اکتوبرترکی کے میڈیا نے ان 15 سعودی باشندوں کے نام جاری کر دیے ہیں جن کے بارے میں ترک حکام کو شبہ ہے کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل میں ملوث ہیں۔سعودی عرب سے وہ افراد نجی طیارے میں استنبول جمال خاشقجی کے قونصل خانے جانے سے چند گھنٹے پہلے پہنچے تھے اور اسی روز رات کو واپس چلے گئے تھے۔20 اکتوبرسعودی عرب نے پہلی بار اپنا موقف تبدیل کیا اور جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق کی۔ عودی عرب نے کہا کہ ابتدائی سرکاری تحقیقات کے مطابق جمال خاشقجی کی موت دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والی ایک ‘لڑائی’ کے نتیجے میں ہوئی۔تحقیقات کے بعد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے اور 18 سعودی شہریوں کو بھی حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا گیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حکام کے بیان کے بعد کہا کہ جو ہوا ہے وہ ‘بالکل ناقابل برداشت’ ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ان کے ملک کا بہت اہم اتحادی ہےسعودی حکومت کی جانب سے 18 افراد کو حراست میں لینا ‘پہلا قدم’ ہے۔ انھوں نے تیزی سے اقدامات لیے۔ پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن ایسا کرنا امریکی معشیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘21 اکتوبرسعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ اقدام ایک ’بڑی غلطی‘ تھی تاہم ان کا اصرار تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی کی ہلاکت کا حکم نہیں دیا اور وہ اس ساری کارروائی سے لاعلم تھے۔ ہم تمام حقائق جاننے اور اس قتل کے تمام ذمہ داران کو سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے انھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی غلطی ہوئی اور اس کے بعد اسے چھپانے کے سلسلے میں یہ غلطی کئی گنا بڑھ گئی۔ہماری انٹیلیجنس سروس کے اعلیٰ افسران کو بھی اس آپریشن کا معلوم نہیں تھا۔ یہ ایک بلااجازت کی جانے والی کارروائی تھی۔‘22 اکتوبرترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کئی دن پہلے کی گئی تھی۔’سعودی عرب جواب دے کہ جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے اور اور اس کارروائی کا حکم کس نے دیا۔‘23 اکتوبرصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی حکام کی جانب سے دی گئی وضاحتوں کو ‘تاریخ میں حقائق چھپانے کی سب سے بری کوشش’ قرار دیا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جس کسی نے بھی اس قتل کی منصوبہ بندی کی ‘اس کو سخت مشکل میں ہونا چاہیے۔ یہ منصوبہ شروع سے ہی بہت ناقص تھا۔ اور پھر اس پر عمل بھی بہت برے طریقے سے کیا گیا اور اس کی پردہ پوشی تو تاریخ میں سب سے بری تھی۔’