میرے کالم کے ’’ٹائٹل‘‘ سے شاید کئی لوگوں کو اختلاف ہو، لیکن اخبارات کے جھوٹے سچے ریکارڈ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں ٹرین حادثوں کی تعداد 530 ہے لیکن میں نے سوچا ادھر اُدھر کی ناقابل اعتبار رپورٹ سے بہتر ہے کہ سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ہی کی رپورٹ پر اکتفاء کیا جائے جس کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 300 ٹرین حادثات ہو چکے ہیں اور اب ایک ماہ میں دو حادثات بھی شامل کر لیے جائیں تو 302کا ہندسہ عبور ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ماہ ایران میں ٹرین حادثے میں 49افراد کی ہلاکت کے فوری بعد ریلوے منسٹر نے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو انکوائری کے لیے پیش کر دیا۔ جنوبی کوریا میں ٹرین حادثے میں ہلاکتوں کے بعد وہاں کے وزیر نے استعفیٰ دیا۔ برسوں پہلے بھارت میں 144افراد کی ٹرین حادثے میں ہلاکت کے بعد لال بہادرشاستری نے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا تھا کہ ’’میں ذمے دار ہوں‘‘۔ چین میں سابق وزیر ریلوے کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ چند سال قبل بنگلہ دیش میں بھی ریلوے وزیر کو حادثات کا موجب بنا کر برطرف کیا گیا۔
لودھراں میں ٹرین حادثہ ہوا تو میںنے سوچا کہ ہمارا وزیر ریلوے بھلا کیوں استعفیٰ دے۔ یہ تو پاکستان ہے، یہاں تو ایسی روایت ہی نہیں رہی۔ ماضی میں 1969 میں لیاقت پور کے قریب ٹرین حادثے میں 80 افراد جاں بحق ہوئے ،کیا اُس وقت کسی نے استعفیٰ دیا؟ 22 اکتوبر 1987 کو مورو کے قریب ٹرین اور بس میں تصادم کے نتیجے میں 28 افراد جان سے گئے،کیا کسی نے استعفیٰ دیا؟ 3 اور 4 جنوری 1990 کی درمیانی شب پنوعاقل چھاؤنی کے قریب سانگی گاؤں کے پاس ٹرین حادثے میں 350 افراد ہلاک ہوئے، یہ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ کا بدترین ٹرین حادثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
جس میں 700 افراد زخمی ہوئے،کیا اس وقت کے وزیر ریلوے ظفر علی لغاری نے استعفیٰ دیا؟ 8 جون 1991 کو ایکسپریس ٹرین اور مال گاڑی کے درمیان گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر تصادم کے نتیجے میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے، کیا اس وقت کے وزیر ریلوے میر ہزار خان بجرانی نے استعفیٰ دیا؟ نومبر 1992 میں گھوٹکی میں ہی ایک بار پھر سے مسافر ٹرین کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا جانے کے نتیجے میں 54 افراد ہلاک ہوئے، کیا غلام احمد بلور نے استعفیٰ دیا؟ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر ہی کوئٹہ اور کراچی ایکسپریس کے درمیان ہولناک تصادم کے نتیجے میں 110 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ان دونوں ٹرینوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے پٹڑی سے اُتر جانے والے ڈبے آنے والی ایک تیسری ٹرین تیزگام سے ٹکرا گئے۔
تینوں ٹرینوں میں مجموعی طور پر تین ہزار سے زائد مسافر سوار تھے اور بعض لوگ ہلاک شدگان کی تعداد 500 تک بتاتے ہیں، کیا اُس وقت کے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے استعفیٰ دیا؟ نومبر 2007 میں محراب پور کے قریب ٹرین پٹڑی سے نیچے اُترنے کی وجہ سے50 افراد ہلاک ہوئے، کیا شیخ رشید جو اس وقت کے وزیر ریلوے تھے نے استعفیٰ دیا؟ اور پھر غلام احمد بلور کے دور میں ریلوے کا جو حال ہوا کیا انھوں نے استعفیٰ دیا اور اب تو 2013سے لے جنوری 2017 تک جو حادثات ہوئے ، ان کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق استعفیٰ کیوں دیں۔ چلیں مان لیا کہ ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے ، موٹر وہیکلز سے ٹکرانے ، انجن اور بوگیوں میں آگ لگنے ۔
ان مینڈ اور مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرین حادثات کی ذمے داری وزیر پر نہیں ڈالنی چاہیے کیونکہ وہ کونسا کسی رکشہ ڈرائیور سے کہتا ہے کہ دھند میں پٹڑیوں کے درمیان میں لا کر رکشہ کھڑا کر دے یا پھاٹک پر کھڑے ملازم سے کہے کہ جب ریل گاڑی آرہی ہو تو پھاٹک کھلا رکھے تاکہ یہ ڈھیٹ عوام اس کے تلے روندی جائے لیکن میرے خیال میںسسٹم کو بہتر کرنا خواجہ صاحب آپ کا ہی کا م ہے، آپ جیسے پڑھے لکھے شخص سے جب اس ادارے کا یہ حال ہے تو یقین مانیں مجھے انڈیا کا ’’ان پڑھ ‘‘ لالو پرساد یاد آجا تاہے جس نے 2004 میں جب بھارتی ریلوے کا چارج سنبھالا تو انڈین ریلوے سفید ہاتھی تھا۔لالو پرشاد نے ریلوے کے ’’ڈاکٹر‘‘ کا کردار ادا کیا۔ تمام بیماریوں کو خود تلاش کیا ۔
علاج کے لیے اقدامات کیے۔ لالوپرشاد صبح گھر سے نکلتااور کسی بھی ٹرین میں سوار ہوجاتا اور اسے راستے میں جو بھی مسائل نظر آتے تھے ، وہ متعلقہ محکمے کو فورا ہدایات جاری کرتااور اس کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کراتا۔ وہ سیکریٹری سے لے کر ریلوے کے چھوٹے موٹے افسران تک سب سے ملاقاتیں ریلوے اسٹیشن پرکرتا اور مسافروںکے مسائل سنتا اور اسی وقت افسران کواصلاح کے احکامات بھی جاری کرتا۔لالوپرشاد نے قاعدہ بنادیاکہ ریلوے کا کوئی اہلکارہوائی سفر،بس و ویگنوں میں سفر نہیں کرسکتا، وہ صرف ریل کے ذریعے سفر کریں گے۔ ریلوے کی مال گاڑیوں کو ترجیح ملنے لگی، اس سے مال برداری کا 90 فیصد حصہ ریلوے کو ملنے لگا اور جلد ہی ریلوے کا خسارہ ختم ہوگیا۔ لالوپرشاد نے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی کینٹینوں سے چینی، پلاسٹک، دھات اور ڈسپوزیبل برتنوں کی جگہ صرف اور صرف مٹی کے برتن استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے۔
اس سے 25ہزار دیہات کا مقدر تبدیل ہوگیا۔ ریلوے اسٹیشنوں کے اردگردکمہاروں نے دھڑا دھڑمٹی کے برتن بنانا شروع کر دیے۔ مٹی کے برتن کیونکہ جلد ٹوٹ جاتے ہیںچناچہ ان کی سپلائی لائن لمبی ہوتی گئی اور ریلوے کے اردگرد کے دیہات مٹی کے برتنوں کی منڈیاں بن گئیں۔ لالوپرشاد نے ریلوے کی انشورنش بھی کرادی۔ اس نے انجنوں کی مرمت ،موبل آئل کی تبدیلی کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا، عملہ بھی کم کردیا، ان تمام عوامل کی بدولت آج بھارتی ریلوے روزانہ تقریباایک ارب روپے کماکر دیتا ہے یعنی سالانہ 365ارب بھارتی روپے، اس وقت بھارت میں روزانہ 14 ہزار سے زیادہ ٹرینیں چلتی ہیں اور حادثات کی تعداد پاکستان سے نہایت کم ہے۔
خواجہ صاحب میں آپ سے عمران خان کی طرح استعفے کا مطالبہ تو نہیں کر رہا مگر اتنا ضرور کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عہدہ پر عوام کی خدمت کے لیے چناہے۔ آپ اسی شعبہ میں رہ کر بلور یا شیخ بننے کے بجائے عوام کے دلوں کی دھڑکن بنیں یا کم از کم لالو پرساد ہی بن جائیں مگر افسوس ہماری ترجیحات ’’غیر نصابی ‘‘ سرگرمیاں ہیں۔ آپ کی جانب سے کبھی پی ٹی آئی کے حوالے سے بیان جاری ہوتا ہے تو کبھی پیپلز پارٹی کی دم پر پاؤں رکھ رہے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات آپ کو سیاسی میٹنگز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دیکھا گیا ہے حالانکہ ان میٹنگز کا فائدہ الیکشن سے پہلے ہوتا ہے ۔ الیکشن کے بعد عوام کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ ادارہ اتنا بھی برا نہیں ہے کہ ٹھیک نہ ہو سکے ۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ ٹرین دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کیا کرتے تھے۔ ’’ریلوے‘‘ اپنی پولیس، اپنے اسکول، ریلوے کالونیاں ، اسپتال اور عدالتیں رکھتا ہے، عدالتوں میں مجسٹریٹ عدالتی کارروائی انجام دیتے ہیں جب کہ مردان میں 251 ایکڑ رقبے پر ریلوے انجن بنانے کا اپنا کارخانہ ہے،جس میں جاپان کی اشتراک بھی شامل ہے مگر کرپشن اور دہشت گردی کے دور میں ریلوے کو تباہ و برباد کرکے ملک کی معیشت کے لیے ایٹم بم بنا دیا ہے۔ مجھے گزشتہ دوربھی اکثر یاد آجاتا ہے جس میں قومی اسمبلی کے50 سیشنوں کے دوران ارکان اسمبلی نے وفاقی وزارتوں میں سب سے زیادہ 568 سوالات وزارت ریلوے سے کیے تھے جن میں سے 346 سوالات اس وقت کی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ نواز نے کیے تھے اور غلام احمد بلور کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔