بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں تین ہزار سے زائد گمنام قبریں دریافت ہوئی ہیں جن کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین پر مبنی گروپ ایسوسی ایشن آف ڈس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) نے ابتدائی طور پر 3884 گمنام قبروں کی موجودگی کا انکشاف کیا جن میں سے 2717 پونچھ اور 1127 قبریں راجوری میں موجود ہیں۔اے پی ڈی پی نے یہ معلومات بھارت کے انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ شیئر کیں جس نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد خطے میں 2080 گمنام قبروں کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان قبروں کے حوالے سے جامع تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کی جائیں اور لاشوں کے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کیے جائیں۔
خیال رہے کہ 2011 میں بھی مقبوضہ کشمیر میں 38 مختلف مقامات پر 2730 قبروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اور اس وقت بھی کمیشن نے حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اب انسانی حقوق کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لاشوں کی شناخت کو یقینی بنایا جائے۔دوسری جانب اے پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ حکومت تحقیقات کرنے سے گریز کررہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ تحقیقات کی گئیں تو اس سے خطے میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ گروپ کے ایک رکن خرم پرویز نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی معتبر تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو سکون حاصل ہوسکے۔خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ قبریں ان کشمیریوں کی ہیں جو ماضی میں لاپتہ ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی رہائشی طاہرہ نامی خاتون کے شوہر بھی 2002 سے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بھی ان گمنام قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ کہیں لاپتہ ہونے والوں کی قبریں تو نہیں ہیں۔
طاہرہ کا کہنا ہے کہ اگر واقعی یہ لاپتہ افراد کی قبریں ہیں اور ہمارے رشتہ دار یہاں دفن ہیں تو کم سے کم ہمیں یہ سوچ کر ہی صبر آجائے گا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ طاہرہ کہتی ہیں کہ ان کے بچے اکثر ان سے پوچھتے ہیں کہ بابا کہاں ہیں اور وہ ہمیشہ ان سے جھوٹ کہتی ہیں کہ وہ کام کے سلسلے میں باہر گئے ہیں، لیکن وہ ان سے یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چھپا سکتی کیوں کہ اب وہ بڑے ہورہے ہیں