لاہور: حکومت کی سمت درست ہے، تعلیم، صحت، خوراک، سماجی تحفظ و دیگر بنیادی حقوق کے حوالے سے موثر کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت میں بتدریج کمی آرہی ہے تاہم ان منصوبوں کا دائرہ کار دوردراز علاقوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔
40 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی، جرائم و دیگر معاشرتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، غربت کے خاتمے کیلیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے،غربت کا حل صنعتکاری ہے،اس سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ معیشت بھی بہتر ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہر اقتصادات اور تجزیہ نگاروں نے ’’غربت کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔
پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے سی ای او سہیل انور چوہدری نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ غربت کو صحیح معنوں میں ہر سطح پر نشاندہی کر کے اس کا خاتمہ کیا جائے، ہمارے ہاں غربت 66فیصد سے کم ہو کر 39فیصد ہو گئی ہے اور ابھی مزید کم ہو رہی ہے،ہمارے ہاں پالیسیاں بہترین اور پلاننگ موثر ہے لیکن بہت ساری جگہ پر عملدرآمد میں مسائل ہیں جس کی وجہ سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
انھوں نے کہا کہ سوشل پروٹیکشن اتھارٹی نے معذور افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا، میڈیکل کے بعد 70 ہزار معذور افراد کو خدمت کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں جس کے تحت انھیں 3600 روپے سہ ماہی دیے جا رہے ہیں، صحت کے حوالے سے بھی وفاق پروگرام شروع کر رہا ہے، پنجاب میں بھی لوگوں کو50ہزار روپے سالانہ علاج معالجے کیلیے دیے جائیں گے، نیوٹریشن کے حوالے سے پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، حاملہ خاتون کو شروع دن سے لیکربچے کی پیدائش کے 2سال تک پیسے فراہم کیے جائیں گے تاکہ بچے کی خوارک اور نشوونما بہتر ہو سکے۔
انھوں نے کہا کہ پنجاب میں 30ارب روپے سے زیادہ فوڈ سیکیورٹی پر خرچ کئے جاتے ہیں، ہماری سمت درست ہے، صاف پانی کمپنی، سالڈویسٹ مینجمنٹ و دیگر منصوبے معاشرے کی بہتری کیلیے ہیں۔ حکومت کو تمام مسائل کا ادراک ہے اور اس حوالے سے پروگرام موجود ہیں اور ان پر کام ہو رہا ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا چونکہ اب تک ماہرین غربت کی ایک تعریف پر متفق نہیں ہو سکے اور مختلف تعریفوں پر مختلف اقدامات ہو رہے ہیں، صحت کے حوالے سے ہماری پالیسی کیوریٹیو کے بجائے پری وینٹیو ہونی چاہیے،علاج معالجے کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ تیسری دنیا کیلیے غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اعدادوشمار میں اونچ نیچ کر کے چیزیں بہتر کر دی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 3ہزار 30 روپے ماہانہ آمدن کے حوالے سے 30فیصد لوگ غریب ثابت ہوئے ہیں، اب حکومت نے اس کے انڈیکیٹرز بڑھائے تو غربت میں اضافہ ہوا اوراس وقت پاکستان میں39.5فیصد لوگ غریب ہیں، روزگار کی شرح57فیصد ہے جبکہ ایک شخص کی جگہ 5لوگ کام کر رہے ہیں جس طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے،ہمیں قدرتی ذخائر کو بروئے کار لانا چاہیے۔
نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ انصاف کا نظام نہ ہونا غربت کی وجہ بنتا ہے، ہمارے ہاں سستا اور بروقت انصاف لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ صنعتکاری سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ 60فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اگر عدم مساوات کا جائزہ لیں تو صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور سب سے زیادہ متاثر خواتین ہیں۔