کراچی: صوبے میں تشدد کی شکار خواتین کے لیے قائم 5شکایتی مراکز اختیارات اور وسائل سے محروم ہیں،گھریلو تشدد کی شکار خواتین کہاں جائیں،رواں مالی سال کے بجٹ میں 7کروڑ روپے سے زائد رقم سے مزید15شکایتی مراکز قائم کیے جائیں گے۔
سندھ حکومت کے تشدد کی شکار خواتین کے لیے قائم 5 شکایتی مراکز میں انتظامیہ اختیارات و وسائل سے محروم ہے،جس کی وجہ سے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی شکایات کے ازالے میں مشکلات درپیش ہیں،جبکہ رواں سال کے مالی بجٹ میں7کروڑ 69 لاکھ روپے کی لاگت سے مزید15 خواتین کے شکایتی مراکز قائم کیے جارہے ہیں،گزشتہ 5شکایتی مراکز سے خواتین مستفید نہیں ہورہی ہیں جس سے عوام کے ٹیکس سے کروڑوں روپے ضایع ہونے کا خدشہ ہے. واضح رہے کہ سندھ بھر میں گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی شکایات کا اندراج کرنے اور ازالہ کرنے کے لیے7 اکتوبر2016 میں اسکیم منظور ہوئی تھی، اس ضمن میں سندھ بھر کے 5 مراکز کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپور خاص اور نواب شاہ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے شکایتی مراکز قائم کیے گئے تھے،اس میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے شکایات کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔
محکمہ ترقی نسواں کے تحت خواتین کے کرائسز سینٹر میں شیلٹر ہوم کا ہونا بھی لازمی ہے جوکہ حکومت نے نہیں بنائے ہیں،محکمہ ترقی نسواں کے تحت خواتین کے شکایتی مراکز میں انچارج بجٹ استعمال کرنے کے اختیارات سے محروم ہیں، تربیت یافتہ عملے کی قلت ہے، بیشتر مراکز کے دفاتر ہی قائم نہیں کیے گئے، حکومت سندھ بھر کے مختلف اضلاع میں مزید 15شکایتی مراکز قائم کرنے کے منصوبے پر کام کررہی ہے،مذکورہ 5شکایتی مراکز بھرپور طور پر فعال نہیں ہیں ، دفاتر میں عملہ ہی غائب رہتا ہے۔ بیشتر مراکز کے دفاتر ہی بند کردیے گئے ہیں، چونکہ کرائے کی زمین پر دفاتر قائم کیے ہوئے تھے،کرائے کی عدم ادائیگی کے سبب مراکز ہی بند کردیے، عملے کو کراچی میں سندھ سیکریٹریٹ میں میٹنگ کے لیے مدعو کیا جاتا ہے توعملے کو کوئی ٹی ڈی اے الاوٗنس(سفری اخراجات) بھی نہیں دیے جاتے ہیں، اسٹاف اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے تو اس کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے یا پھر کسی دوسری جگہ پر ٹرانسفر کرنے کے لیے دباوٗ ڈالا جاتا ہے اگر اسٹاف ہی دیگر سہولیات سے محروم ہے تو وہ تشدد کی شکار خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بہتر کارکردگی ظاہر نہیں کرسکتا.
کراچی کا شکایتی مرکزکرایہ کی زمین پر ہونے کی وجہ سے پی ای سی ایچ ایس بلاک سے صدر میں منتقل کردیا گیا جہاں صرف ایک خاتون ماہر نفسیات ہوتی ہیں جبکہ باقی عملہ غائب رہتا ہے۔ اس شکایتی مرکز کے حوالے سے خواتین کو کوئی آگاہی نہیں اور نہ ہی ان مراکز میں خواتین نظر آتی ہیں،جبکہ محکمہ ترقی نسواں کے سیکریٹری مدثر اقبال سیمینار میں خواتین کو کیسز حل کرنے کے حوالے سے اعدادوشمار بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں. حیدرآباد کا شکایتی مرکز گزشتہ3مہینے سے بند ہے اور ساتھ ہی بچوں کی نگہداشت کے لیے ڈے کیئر سینٹر ہی بند ہوگیا،سیکریٹری کو خطوط ارسال کیے جاچکے ہیں لیکن کوئی موزوں بلڈنگ میںدفتر نہیں بنایا،حیدرآباد کی انچارج نے ڈسٹرکٹ کونسل کی بلڈنگ کے ایک کمرے میںعارضی دفتر قائم کیا جہاں خواتین کے لیے کوئی واش روم ہی نہیں. لاڑکانہ کے شکایتی مرکزمیں کوئی انچارج ہی نہیں ہے، صرف ایک چوکیدار اور چپڑاسی موجود ہوتا ہے، میرپورخاص کے شکایتی مرکز میں کوئی خاتون اسٹاف میں شامل ہی نہیں بلکہ صرف ایک چوکیدارہی ہوتا ہے اور اکثر دفتر بند ہی رہتا ہے،جبکہ نواب شاہ میںصرف انچارج زیب انسا نامی خاتون ہے۔